Maktaba Wahhabi

234 - 346
دوران مولانا علی محمد صمصام نے فرمایاجو شخص اب روزہ افطار کرے، میں اسے سو روپیہ دوں گا۔مولانا گکھڑوی بھی تشریف فرما تھے۔فرمانے لگے: سو روپیہ دو، میں افطار کرتا ہوں۔مولانا صمصام نے سو روپے دیے تو جیب میں ڈال کر خاموش ہو رہے۔مولانا صمصام نے اصرار کیا کہ روزہ افطار کرو۔مولانا گکھڑوی فرمانے لگے: کن نادانوں سے سابقہ پڑاہے۔بھائی روزہ افطار کرنے اور توڑنے میں فرق ہے۔آپ نے افطار کا کہا ہے۔افطار تو افطار کے وقت پر ہوگا۔ان سے کہا گیا کہ بات تو اب افطار کرنے کی تھی۔فرمانے لگے قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:﴿فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ﴾(اب ان سے مباشرت کرو)’’اب‘‘ سے رات مراد ہے۔یعنی رات کے وقت اسی طرح اس ’’اب‘‘ سے بھی افطار کا وقت مقررہ مراد ہے۔ مولانا کے اس استدلال پر سب ششدر ہوکر رہ گئے۔اس سے ان کے استدلالی مزاج کا اندازہ لگا یا جاسکتاہے۔مولانا نے بعد میں یہ سو روپے مولانا صمصام کی اہلیہ کو دیے، کیوں کہ یہ بات انھوں نے مجلس میں ہی کہہ دی تھی کہ یہ رقم انھیں نہیں دوں گا، اپنی بھابھی صا حبہ کو دوں گا۔ اس نوعیت کی بہت سی باتیں حضرت حافظ عبدالقادر روپڑی سنا یا کرتے تھے، مگر افسوس آج نہ سنانے والے رہے، نہ وہ جن کی یہ باتیں تھیں۔اللہ تعالیٰ ان سب کی حسنات قبول فرمائے اور انھیں جنت الفردوس عطا فرمائے، آمین! ٭٭٭
Flag Counter