Maktaba Wahhabi

229 - 346
تردد اور تشکیک کا شکار ہے اور قرآن پاک سے حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات پر جو مرزا قادیانی نے استدلال کیاہے، اس کے بارے میں رہنمائی چاہتا ہے۔چنانچہ مولانا مرحوم نے ان چند آیات کے متعلق گفتگو فرمائی جنھیں مرزا قادیانی نے معرضِ استدلال میں پیش کیا تھا۔مولانا کا اسلوبِ تفہیم مناظرانہ تھا۔ایک راہِ گم گشتہ کے لیے ظاہر ہے یہ اسلوب رہنمائی اور تشفی کا باعث نہیں بنتا۔ایک طالب علم کی استعداد کے مطابق حکیمانہ گفتگو ہی اس کی تشفی کا باعث ہوتی ہے۔انھوں نے طالب علم کا لحاظ رکھے بغیر اپنے مناظرانہ اسلوب کو ہی اپنائے رکھا۔یوں ان کی باتیں میری سمجھ سے بالاتر رہیں اور میرے اشکالات بہ دستور ذہن کو پراگندہ کرتے رہے۔اس کا حل بالآخر حضرت مولانا محمد ابراہیم میرسیالکوٹی کی شہادت القرآن سے ہوا اور اطمینان قلب کی نعمت میسر آئی۔والحمد للہ علیٰ ذلک۔یہ مولانا گکھڑوی سے میری پہلی ملاقات تھی۔ 2۔حضرت مولانا احمد الدین گکھڑوی زندگی کے آخری ایام میں جب خطبہ و خطابت کے میدان سے اپنی ناتوانی اورپیرانہ سالی کی بنا پر فارغ تھے تو کچھ دنوں کے لیے ’’لائل پور‘‘ تشریف لے آتے۔جامع مسجد رحمانیہ مندر گلی میں قیام فرماتے۔مولانا محمد یوسف انور کے والد گرامی حاجی عبدالرحمن مرحوم ان کے خدمت گزار ہوتے۔اور اس خدمت میں رحمانیہ مسجد کے امام و مدرس حافظ محمد حنیف مرحوم بھی کسی اعتبار سے پیچھے نہیں رہتے تھے۔وہ ان کی خوراک اور آرام کا بڑا اہتمام کرتے۔حافظ محمد حنیف کا آبائی قصبہ فیروزوٹواں(ضلع شیخوپورہ)تھا۔بڑے نیک اور درویش منش انسان تھے۔رحمانیہ مسجد میں تشریف لانے والے علماے کرام کی لوجہ اللہ خدمت کر کے خوش ہوتے۔علماے کرام بھی لائل پور تشریف لاتے تو رحمانیہ مسجد میں ڈیرے ڈال دیتے۔مولانا احمد الدین بھی یہاں تشریف لاتے۔
Flag Counter