Maktaba Wahhabi

228 - 346
مرزا غلام احمد قادیانی کے نام سے شائع ہوا تھا اور اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے متعلق تیس(30)آیاتِ قرآنی سے استدلال کیا گیا تھا، میرے ہاتھ لگا۔اسے پڑھا تو دل و دماغ تشکیک کا شکار ہوگئے۔ہم جماعت ساتھیوں سے بات ہوئی تو کوئی تشفی بخش جواب نہ ملا۔اساتذہ کرام سے اپنی خورد سالی کی بنا پر بات کرنے سے گھبراتا تھا۔میں تھوڑا عرصہ پیشتر جامعہ سلفیہ میں آیا تھا اور ابھی اہلِ حدیث بھی نہیں ہوا تھا۔حسنِ اتفاق کہ جامعہ تعلیم الاسلام(ماموں کانجن)کے احباب نے کانفرنس کے انعقاد کا پروگرام بنایا۔کانفرنس میں شرکت کے لیے ملک بھر کے جید اور نامور علماے کرام کے نام پر مشتمل بڑا اشتہار پہلی بار دیکھا۔ ماموں کانجن کا نام عرصہ پہلے اپنے وطن لیاقت پور میں سن چکا تھا۔اس کے دیکھنے اور کانفرنس میں شریک ہونے کا اشتیاق دوچند ہوگیا۔ادھر میرے ہم جماعت مولانا حافظ عبدالستار مرحوم(سابق شیخ الحدیث جامعہ کوٹ ادو)اور مولانا عبدالکریم ثاقب(حال برمنگھم)کی تشجیع نے اس اشتیاق کو سہ آتشہ بنا دیا کہ کانفرنس میں چلو، مولانااحمد الدین گکھڑوی وہاں تشریف فرما ہوں گے، ان سے حیاتِ مسیح علیہ السلام کے مسئلے میں تمھاری تشفی ہو جائے گی۔چنانچہ ہم حسبِ پروگرام کانفرنس میں شریک ہونے کے لیے ماموں کانجن جامعہ تعلیم الاسلام پہنچے۔وہاں پہلی بار اکابر علماے اہلِ حدیث کو دیکھا، اور مولانا گکھڑوی تو ہمارے مطلوب تھے۔وہ ایک خیمے میں تشریف فرما تھے اور ان کے چند عقیدت مند ان کے پاس بیٹھے تھے۔جامعہ سلفیہ کے ناتے سے ہم نے اپنا تعارف کرایا اور ان کے پاس بیٹھ گئے۔ حال احوال پوچھنے کے بعد مرحوم حافظ عبدالستار صاحب نے میرا تعارف کراتے ہوئے حیاتِ مسیح کے بارے میں مولانا مرحوم سے عرض کیا کہ یہ اس مسئلے میں
Flag Counter