Maktaba Wahhabi

178 - 346
آگئے۔مولانا نے پوچھا: شہد لائے ہو؟ کہا: بھول گیا۔لیکن اس بھول کا اس قدر احساس ہوا کہ دوبارہ فیصل آباد گئے اور شہد کی بوتل لا کر مولانا کی خدمت میں پیش کی۔ عبداللہ کے چار بیٹوں میں سے دو بیٹے محمداسلم اور محمد یوسف فوت ہوگئے ہیں۔دو محمد یعقوب اور محمد یونس زندہ ہیں۔محمد یونس کی عمر اس وقت ساٹھ سال ہے اور وہ کھوکھر کی(گوجراں والا)میں اقامت گزیں ہیں۔ مولانا احمد الدین سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔رہن سہن، لباس اور کھانے پینے میں کوئی تکلف نہ تھا۔دوستوں کے دوست تھے۔﴿اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ﴾ کاصحیح ترین نمونہ تھے۔جو شخص ان پر کسی قسم کا احسان کرتا اسے یاد رکھتے اور اس کے شکرگزار ہوتے۔ مولانا احمد الدین نے مروجہ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد 1920ء کے لگ بھگ تبلیغ دین کا سلسلہ شروع کیا۔اس زمانے میں مبلغینِ اسلام زیادہ پیدل چلتے تھے، مولانا ممدوح بھی دیہات میں جلسوں پر جاتے تو پیدل ہی جاتے۔ وہ بڑا عجیب دور تھا۔لوگ اہلِ حدیث کی سخت مخالفت کرتے تھے۔وہابی کہہ کر ان سے دور بھاگتے اور ان کے خلاف تعصب پھیلاتے۔اس زمانے میں اہلِ حدیث علما تبلیغِ دین کے لیے تکلیف اٹھا کر بھی پہنچنے کی کوشش کرتے تھے۔ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ ایک آدمی بھی ان کی تبلیغ سے راہِ راست پر آگیا تو ان کا مقصد پورا ہوگیا اور ساری تکلیف رفع ہو گئی۔یہ ان کے اخلاص اور کتاب و سنت سے محبت کی دلیل تھی۔ مولانا احمد الدین نے تما م عمر توحید وسنت کی تبلیغ اور بدعات کی تردید کرتے ہوئے گزاری۔یہی ان کی زندگی کا مقصدتھا اور یہی ان کے دل کی آواز تھی۔
Flag Counter