Maktaba Wahhabi

173 - 346
غور دیکھا تو میں نے اس میں عجیب وغریب اور مفید تریں تحقیق پائی، جس میں(مولف نے)حدیث ’’من کان لہ امام فقرأۃ الامام لہ قرأۃ‘‘ کے تمام طرق کو جمع کر دیا ہے، جو حضرت جابر رضی اللہ عنہ اور دوسرے راویوں سے مروی ہے اور انھوں نے حدیث کے ان طرق کی وجہ تضعیف وعلل کو تفصیل سے ذکر کیاہے، اور امام بخاری اور امام بیہقی رحمہ اللہ کی طرح انھوں نے سب طرق کی مدلل تحقیق کی ہے۔ عرض یہ کرنا مقصود ہے کہ مولانا احمد الدین گکھڑوی فارسی اور عربی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ان میں گفتگو پر بھی قادر تھے اور تحریر پر بھی۔ عربی اور فارسی پر ان کے عبور کی وجہ یہ ہے کہ کتبِ درسیہ انھوں نے انہماک اور محنت سے پڑھی تھیں۔پھر بعض مدارس میں یہ کتابیں انھوں نے طلبا کو پڑھائی بھی تھیں۔اگرچہ انھوں نے طویل عرصے تک کسی مدرسے میں تدریسی خدمت سر انجام نہیں دی، اسی طرح زیادہ مدت تک کہیں خطابت کا فریضہ بھی انجام نہیں دیا، ہر جگہ ان کی مدتِ خطابت مختصر رہی یا چند سالوں تک محدود۔لیکن یہ واضح بات ہے کہ جس مسجد میں وہ خطبہ دیتے تھے، وہاں وہ اگلے خطبے تک آٹھ دن بے کار تو نہیں بیٹھے رہتے تھے، لازماً اس اثنا میں وہاں کسی دینی مدرسے میں یا اسی مسجد میں جس کے وہ خطیب تھے، طلبا کو درسی کتابیں پڑھاتے ہوں گے۔کوئی عالم دین بھی ایسا نہیں جو درس و تدریس سے گریز کرتا ہو۔ جیسا کہ گزشتہ صفحات میں عرض کیا گیامولانا احمد الدین نے جب درسیات سے فراغت پائی تو خود ان کے شہر گکھڑ میں حافظ محمد یوسف صاحب کے والد نے اپنے خرچ سے مسجد تعمیر کرائی جو اہلِ حدیث کی وہاں پہلی مسجد تھی، اس میں پچیس تیس
Flag Counter