Maktaba Wahhabi

164 - 346
میں جن علماے کرام کا نمایاں ذکر ملتا ہے، ان میں مولانا میر سیالکوٹی کے علاوہ مولانا احمد دین گکھڑوی، مولانا نور حسین گرجاکھی اور مولانا عبداﷲ ثانی امرتسری سرفہرست ہیں۔یہ علماے دین مختلف شہروں اور دیہاتوں کا دورہ کرتے اور دعوتِ توحید و سنت کے ساتھ مخالفانہ یورش کا بھی بھرپور جواب دیتے، ان علماے کرام کی تبلیغی مساعی سے بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا اور کئی لوگوں کے عقائد کی اصلاح ہوئی۔ مولانا ممدوح عوامی جلسوں کے علاوہ متعدد مقامات کی مساجدِ اہلِ حدیث میں بھی خطابت کا فریضہ سرانجام دیتے رہے۔ جامع مسجد اہلِ حدیث وزیرآباد: وزیرآباد(ضلع گوجراں والا)کی جس مسجد میں حضرت حافظ عبدالمنان وزیر آبادی رحمہ اللہ تدریس و خطابت میں مصروف رہے، اس مسجد اور ان کے جاری کردہ مدرسے نے پورے متحدہ ہندوستان میں شہرت پائی اور علما و طلبا کی کثیر تعداد نے حضرت حافظ صاحب سے استفادہ کیا۔ان کی وفات کے بعد یہ ذمے داری ان کے شاگردِ رشید مولانا عمر الدین کے سپرد ہوئی، جن کا تذکرہ کتاب کے دوسرے باب میں کیا گیا ہے۔انھوں نے سفرِ آخرت اختیار کیا تو اس مسجد کی خطابت کی ذمہ داری مولانا احمد الدین گکھڑوی کو سونپی گئی۔مولانا ممدوح کچھ عرصہ اس منصب پر فائز رہے۔اس کے بعد حالات نے ایسی کروٹ لی کہ مولانا کو اس سے علاحدہ ہونا پڑا۔یہ قیامِ پاکستان سے قبل کی بات ہے۔جماعتی معاملات بدلتے رہتے ہیں، کبھی خوش گوار حالات سے واسطہ پڑتا ہے اور کبھی ناخوش گوار واقعات رونما ہو جاتے ہیں۔بہرحال مولانا احمد الدین گکھڑوی کچھ عرصہ حضرت حافظ عبدالمنان کی جامع مسجد اہلِ حدیث(وزیرآباد)میں خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے رہے۔
Flag Counter