Maktaba Wahhabi

161 - 346
محمد سلیم چنیوٹی 28 مئی 2010ء کے ’’الاعتصام‘‘ میں ڈاکٹر محمد یوسف فاروق کے حوالے سے مولانا احمد الدین گکھڑوی کے وعظ کے متعلق رقم طراز ہیں : ’’مولانا احمد الدین جب وعظ فرماتے تو دائیں ہاتھ میں قرآن کریم پکڑتے اور بائیں ہاتھ سے اپنی قمیص کے ایک کونے کو مروڑتے رہتے۔دورانِ تقریر میں جب کوئی تاکیدی جملہ کہنے کا موقع آتا تو بائیں ران پر مُکّا مارتے اور اپنی بات جوش سے سامعین کو سمجھانے کی کوشش فرماتے۔اس عمل سے ان کی ران پر ایک سیاہی مائل نشان سا پڑ گیا تھا۔‘‘ مجھے ان کی ران کے نشان کا تو علم نہیں، البتہ یہ بالکل صحیح ہے کہ وعظ کہتے ہوئے جب وہ جوش میں آتے تو بائیں ران پر زور سے مُکاّ مارتے تھے۔یہ معلوم نہیں انھوں نے بہ وقتِ جوش مکا مارنے کے لیے ران کا انتخاب کیوں کیا تھا، جب کہ ایسے مواقع پر مقررین میز پر مکے مارتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ مولانا احمد الدین کی ہر ادا نرالی تھی اور ہر معاملے میں وہ انفرادیت رکھتے تھے۔وعظ و تقریر میں بھی ان کا ایک خاص انداز تھا، مناظرے میں بھی ان کا الگ رنگ تھا اور مجلسی گفتگو میں بھی انھیں دوسروں سے امتیاز حاصل تھا۔میرے دوست مولانا عارف جاوید محمدی نے مجھے ایک کتاب بھیجی ہے جس کانام ’’تاریخ اہلِ حدیث جموں وکشمیر‘‘ ہے۔یہ کتاب صوفی احمد مسلم کی تصنیف ہے اور جمعیت اہلِ حدیث جموں وکشمیر(سری نگر)کی طرف سے شائع کی گئی ہے۔اس میں لکھا ہے کہ کسی زمانے میں کشمیر کے ایک عالمِ دین مولانا محمد عمر، حضرت مولانا ثناء اللہ کی خدمت میں امرتسر پہنچے اور کشمیر کے شہر پونچھ میں اہلِ حدیث کی مسجد بنانے کے متعلق عرض کی تو مولانا مرحوم نے بلا توقف مسجد کے لیے پانچ سو روپے کی تھیلی پیش کی۔یہ رقم
Flag Counter