Maktaba Wahhabi

140 - 346
لوگ پریشان ہوئے۔ایک گاؤں ڈھنڈیاں میں انھوں نے جلسہ کرنے کا اعلان بھی کر دیا۔اب مجبور ہو کرمولانا محمد علی صاحب نے مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی سے فرمایا کہ وہ کسی مناظر سے بات کریں جو یہاں آئیں اور حافظ صاحب سے ان مسائل کے متعلق مناظرہ کریں جن پر وہ مناظرہ کرنا چاہتے ہیں۔چنانچہ مولانا عطاء اللہ صاحب گکھڑ گئے اور مولانا احمد الدین سے بات کی۔ مولانا عطاء اللہ صاحب نے بتایا تھا کہ جب وہ مولانا احمد الدین کے پاس گکھڑ پہنچے، اس وقت وہ کسی کام میں مصروف تھے اور وہ اس کام کو جلد ختم کرنا چاہتے تھے۔ مولانا احمد الدین نے ان سے کہا مجھے تو معلوم ہی نہیں کہ غرباے اہلِ حدیث کون ہیں اور کن مسائل میں ان کا کیا نقطہ نظر ہے اور عام اہلِ حدیث حضرات سے ان کے اختلاف کی کیا نوعیت ہے۔ مولانا عطاء اللہ صاحب نے ان سے فرمایا کہ آپ میرے ساتھ چلیے۔میں اس سلسلے کی تمام باتیں آپ کو راستے میں بتا دوں گا۔چنانچہ وہ مولانا عطاء اللہ حنیف صاحب کے ساتھ چل پڑے اور مولانا نے اثنائے سفر میں ان کو ضروری باتیں بتا دیں۔ مولانا احمدالدین نہایت ذہین تھے اورمسائلِ دینیہ کے تمام گوشوں پر انھیں عبور حاصل تھا۔مولانا عطا ء اللہ صاحب کے بتانے اور چند کتابوں کے حوالے دینے سے اصل موضوع کے سب نکات ان کے ذہن میں آگئے۔ لکھو کے سے کچھ فاصلے پر نہر کے کنارے موضع’’ڈھنڈیاں’‘میں مناظرہ طے پایا۔مناظرے سے پہلے علاحدگی میں حضرت حافظ عبدالستار صاحب سے ان کی کچھ باتیں بھی ہوئیں۔بہت بڑا مجمع تھا۔مولانا محمدعلی لکھوی بھی موجود تھے جو مولانا احمدالدین کے قریب کرسی پر بیٹھے تھے۔میں بھی وہیں زمین پر بیٹھا تھا۔فاضلکا بنگلہ اور اس کے اردگرد کے دیہات میں اوڈ راجپوت خاصی تعداد میں آباد تھے اور وہ
Flag Counter