Maktaba Wahhabi

139 - 346
تدریس کے لیے مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کی خدمات حاصل کیں تو میں بھی طالب علم کے طور پر مولانا عطاء اللہ صاحب کے ساتھ وہیں چلا گیا۔طلبا کی جماعت میں مولانا محمد علی لکھوی کے دونوں صاحب زادے(مولانا محی الدین لکھوی اور مولانا معین الدین لکھوی)بھی شامل تھے۔ مرکز الاسلام سے ڈیڑھ میل کے فاصلے پر ایک گاؤں ’’چک مولوی والا‘‘ تھا۔اس گاؤں میں ایک بزرگ میاں عبدالقادر سکونت پذیر تھے جو ایک سرکاری سکول میں معلم تھے، نہایت حلیم الطبع بزرگ۔گرمیوں کا موسم تھا کہ اپنے چند معزز رفقا کی معیت میں جماعتِ غرباے اہلِ حدیث کے امام حضرت مولانا حافظ عبدالستار دہلوی تشریف لائے اور چک مولوی والا میں میاں عبدالقادر مرحوم کے ہاں قیام فرما ہوئے۔ حضرت حافظ عبدالستارمشہور مبلغ توحید اور بہت اچھے خطیب تھے۔انھوں نے وہاں کے دیہات میں تبلیغی دورہ شروع کیا اور بعض مسائل میں مولانا محمد علی لکھوی کو مناظرے کا چیلنج کیا۔یہ معلوم نہیں کہ اس چیلنج کو تبلیغِ دین سے کیا تعلق تھا۔لوگ مولانا کی خدمت میں آئے اور حضرت حافظ صاحب کی سرگرمیوں اور مناظرے کے چیلنج کی بات کی۔مولانا نے اس وقت اسے کوئی خاص اہمیت نہ دی اور فرمایا: ’’مناظرے کے لیے محی الدین کو لے جاؤ۔‘‘[1] مولانا محمد علی صاحب نے حافظ صاحب اور ان کی جماعت کے متعلق کبھی ایک لفظ بھی نہیں کہاتھا۔ان کا خیال یہ تھا کہ جماعت اہلِ حدیث کے علما کو آپس میں جھگڑنا نہیں چاہیے۔لیکن حضرت حافظ صاحب نے مختلف دیہات میں جاکر مناظرے کے لیے بہت زیادہ اصرار کیا، بلکہ اسی کو تبلیغِ دین قرار دے لیا، جس سے اس نواح کے
Flag Counter