Maktaba Wahhabi

136 - 346
چاہتا تھا۔ابھی مولانا نے دو مقامات ہی سے چند الفاظ پڑھے تھے کہ پنڈت جی نے ہاتھ جوڑ دیے اور کہا بس کیجیے، اس سے آگے نہ پڑھیے۔ اسی طرح کا معاملہ ایک دفعہ مولانا احمد الدین کے ساتھ پیش آیا۔مناظرے میں ایک بد زبان پادری نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ازواجِ مطہرات کے متعلق کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طاقت کو نو سال کی عائشہ(رضی اللہ عنہا)نے کیسے برداشت کیا؟ مولانا احمدا لدین کو بادلِ نخواستہ جواب دینا پڑا کہ تم لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے ہو، اس طرح حضرت مریم[ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ تھیں،(العیاذبا)اللہ کی بیوی ہوئیں۔انھوں نے اللہ کی لامحدود طاقت کو کیسے برداشت کیا؟ اس جواب پر لوگ بہت خوش ہوئے اور مولانا احمدالدین کو بے حد داد بھی ملی، لیکن انھوں نے فرمایا: میں نے پادری صاحب کی بدزبانی اور انتہائی گستاخانہ الفاظ سے مجبور ہوکر یہ جواب دیا ہے۔اس پر میں اللہ سے توبہ کرتا ہوں۔ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ابنیت وابویت کے سلسلے سے پاک ہے … لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ … حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے پیغمبر تھے۔ان کا کوئی باپ نہ تھا۔ان کی ماں حضرت مریم بہ درجہ غایت پاک باز عورت تھیں۔ یہ واقعہ میں نے اس لیے بیان کیا ہے کہ مناظر کو بسا اوقات کئی قسم کی مشکل منزلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ایک مرتبہ حافظ آباد میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان مناظرہ ہوا،جس میں مسلمانوں کی طرف سے مولانا ابوالوفاء ثناء اﷲ صاحب امرتسری، محدث العصر حافظ محمد صاحب گوندلوی اور مولانا احمد دین گکھڑوی جب کہ عیسائیوں کی طرف سے پادری سلطان محمد پال اور پادری عبدالحق مناظرین تھے، یہ مناظرہ 2۔3 ستمبر
Flag Counter