Maktaba Wahhabi

95 - 108
اختلاف کرتا تھا اور اہل عراق نے ان کی مخالفت کی اور ان کا ساتھ دینے سےگریز کیا۔اس کے برعکس(ان کے مخالف)اہل شام کا معاملہ مضبوط ہوتا گیا۔۔۔اور اہل شام کی قوت میں جتنا اضافہ ہوتا، اہل عراق کے حوسلے اتنے ہی پست ہوجاتے۔ایسا اس حالت میں ہو اکہ ان کے امیر علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے جو اس وقت روئے زمین پر سب سے بہتر، سب سے زیادہ عابد وزاہد، سب سے زیادہ عالم اور اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والے تھے، اس کے باوجود اہل عراق(یعنی ان کے اپنے ماننے والوں نے)ان کو بے یار ومددگار چھوڑ دیا اور ان سے علیحدہ ہوگئے یہاں تک کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ زندگی ہی سے بیزار ہوگئے اور موت کی آرزو کرنے لگے اور یہ اس لیے ہوا کہ فتنے بہت زیادہ ہوگئے اور آزمائشوں کا ظہورہوا۔‘‘ (البدایۃ، ۳۳۵/۷، ذکر مقتل امیرا لمؤمنین علی بن ابی طالب) خود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک موقعے پر اپنے سر پر قرآن رکھ اور اہل کوفہ کی بابت بارگاہ الہٰی میں یوں عرض کناں ہوئے: ’’اے اللہ! انہوں نے مجھے وہ کام نہیں کرنے دیئے جن میں امت کا بھلا تھا، پس تو مجھے ان کے ثواب سے محروم نہ رکھنا(پھر فرمایا)اے اللہ! میں ان سے اکتا گیا ہوں اور یہ مجھ سے اکتا گئے ہیں، میں انہیں ناپسند کرتا ہوں اور یہ مجھے ناپسند کرتے ہیں۔۔۔’‘(البدایہ، ۱۳/۸) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے شام کے گورنر چلے آرہے تھے، جس پر وہ سالہا سال تک فائز رہے(گورنری کی یہ مدت ۲۰ سال شمار کی گئی ہے)۴۰ ھ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ خلیفۃ المسلمین بن گئے اور اپنی وفات یعنی ۶۰ ہجری تک خلیفہ رہے، یوں ان کے دور حکومت و خلافت کی مدت ۴۰ سال بنتی ہے۔اس چالیس سالہ دورِ حکمرانی پر تبصرہ کرتے ہوئے حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں: ’’حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ گورنری میں فتوھات کا سلسلہ جاری اور روم وافرنگ وغیرہ کے علاقوں میں جہاد ہوتا رہا۔پھر جب ان کے اور امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان اختلاف ہوا، تو فتوحات کا سلسلہ رک گیا اور ان ایام میں کوئی فتح نہیں ہوئی، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں نہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں۔بلکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی زیر امارت علاقے میں شاہ روم(عیسائی
Flag Counter