Maktaba Wahhabi

65 - 108
((وکان فی جیش یزید بن معاویۃ وإلیہ أوصیٰ وھو الذی صلی علیہ))(البدایۃ والنہایۃ: ۶۰/۸۔۶۱) اسی جلد کے ص: ۱۵۱ پر لکھا ہے کہ حضرت حسین بھی اس لشکر میں موجود تھے۔ ((وقد کان فی الجیش الذین غزوا القسطنطنیۃ مع ابن معاویۃ یزید))(البدایۃ والنہایۃ: ۱۵۳/۸) اور ص ۲۲۹ میں یزید کے حالات میں لکھا ہے۔ ((وقد کان یزید أول من غزا مدنیۃ قسطنطنیۃ))(البدایۃ والنہایۃ: ۲۳۲/۸) اسی طرح ابن عبدالبر(متوفی ۴۶۳ھ)کیک تاب "الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب" ج:۱، ص:۱۵۷۔امام سہیلی(متوفی۵۸۱ھ)کی الروض الانف(شرح سیرت ابن ہشام)ج: ۲، ص:۲۴۶۔حافظ ابن حجر کی کتاب "الاصابہ فی تمییز الصحابہ" ج:۲، ص:۹۰ میں اسی حقیقت کا اثبات کیا گیا ہے۔علاوہ ازیں شروح بخاری "فتح الباری" ج:۶، ص: ۱۲۵،(طبع دارالسلام)اور’’عمدۃ القاری’‘میں بھی حدیث((یغزون مدینۃ قیصر))کی شرح کرتے ہوئے یہی کچھ لکھا گیا ہے۔ حدیث اور تاریخ کے ان تمام حوالوں سے یہ بات پایہ ٔ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ جس لشکر کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغفور لھم(وہ بخشا ہوا ہے)فرمایا ہے اس کے امیر یزید بن معاویہ ہی تھے۔رحمہ اللّٰه تعالیٰ۔ اس تاریخی حقیقت کے برعکس بعض لوگ یزید کو اس شرف سے محروم کرنے کےلیے کہتے ہیں کہ زیر بحث لشکر کے امیر حضرت سفیان بن عوف تھے، یزید نہ تھے۔لیکن تاریخی دلائل اس رائے کی تغلیط و تردید کرتے ہیں۔جیسا کہ محولہ بالا عبارتوں سے واضح ہے۔غالباً ایسے لوگوں کے سامنے ابن الاثیر(متوفی ۶۳۰ھ)کی الکامل اور ابن خلدون(متوفی ۸۰۸ھ)کی تاریخ ہے حالانکہ ان کے بیانات سے بھی ان کی رائے کی تائید نہیں ہوتی۔ ابن الاثیر نے اس سلسلے میں یہ لکھا ہے کہ : ’’حضرت معاویہ نے قسطنطنیہ کی طرف کثیر فوج روانہ کی، حضرت سفیان بن عوف
Flag Counter