Maktaba Wahhabi

101 - 108
لگے :’’(مستقبل میں)قتل کیے جانے والے، میں تمہیں اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔’‘(البدایۃ، ۱۶۱/۸) حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے علم میں جب یہ بات آئی کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پاس اہل کوفہ کے خطوط آرہے ہیں، تو وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے ملے اور ان سے کہا: "اے ابو عبداللہ! میں تمہارا خیرخواہ اور تمہاری بابت اندیشے میں مبتلا ہوں۔مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ تمہارے حمایتی کوفیوں کی طرف سے تمہیں خطوط آرہے ہیں جن میں وہ تمہیں یزید کے مقابلے میں کھڑے ہونے کی دعوت دےرہے ہیں(لیکن میری نصیحت یہ ہے کہ)تم وہاں مت جانا، اس لیے کہ میں نے تمہارے والد کو کوفے میں یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: "اللہ کی قسم! میں ان(کوفیوں)سے اکتا گیا ہوں اور میں ان سے نفرت رکھتا ہوں اور وہ مجھ سے اکتا گئے ہیں اور مجھ سے نفرت کرتے ہیں اور ان سے کبھی وفا کی امید نہیں۔"(البدایۃ والنہایۃ، ۱۶۳/۸) ان کے علاوہ اور بھی متعدد حضرات نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو اہل کوفہ پر اعتبار کرکے کوفہ جانے سے اور یزید کے خلاف کوئی اقدام کرنے سے روکااور اس اقدام کی خطرناکیوں سے انہیں آگاہ کیا، مثلا حضرت ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ،حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ،حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ،ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ،حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ،عمرہ بنت عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ،بکر بن عبدالرحمٰن بن حارث رضی اللہ عنہ،عبداللہ بن مطیع اور عبداللہ بن جعفر وغیرہم۔حتی کہ گورنر مکہ عمرو بن سعید نے بھی انہیں کوفہ جانے سے روکا اور مکے ہی میں رہنے پر زور دینے کے علاوہ ان کے حفظ و امان کی ضمانت دی اور ان سے حسن سلوک کا وعدہ کیا۔بلکہ خود یزید نے بھی ایک مکتوب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نام لکھا اور انہیں کہا کہ وہ حضرت حسین کو اپنے مجوزہ اقدام سے روکیں، اس سے مسلمانوں میں تفرقہ پیدا ہوگا۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:(البدایۃ، ۱۶۴/۸۔۱۶۸۔الطبری ۲۸۶/۴۔۲۸۸) بلکہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ تک بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے حضرت
Flag Counter