Maktaba Wahhabi

91 - 303
دنیا تک پڑھے جانے والے اپنے مقدس کلا م قرآن کریم میں جگہ جگہ ان کو سراہا ہے ، ان کی تعریف کی ہے۔ان کے اخلاق فاضلہ و خصائل حمیدہ کا تذکرہ کیا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ’’رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ‘‘ کا ان کو سرٹیفکٹ عطاکیا ہے ، کہیں ان کے بارے میں ’’رُحَمَائُ بَیْنَہُمْ تَرَاہُمْ رُکَّعاً سُجَّداً‘‘کے الفاظ نازل کیے تو کہیں ’’السَّابِقُوْنَ الأوَّلُوْنَ ‘‘کہا اور ’’وَکُلّاً وَّعَدَاللّٰہُ الْحُسْنٰی‘‘ کا کہیں اعلان کیا۔ نبی اکرم صادق ومصدوق جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ان اصحاب کی قربانیوں اور دین متین کے تحفظ میں ان کی خدمات کو کون سمجھ سکتا ہے ، اس لیے آپ امت کو ان اصحاب کا مقام ومرتبہ بتلاتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ خَیْرُ الْقُرُوْنِ قَرْنِیْ‘‘ یا ’’ خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِیْ‘‘۔سب سے بہتر زمانہ یا سب سے بہتر لوگ میرے زمانے والے ہیں ، اور جب یہ سب سے بہتر ٹھہرے تو پھر ان کو ان کا مقام ملنا چاہیے، اور ان کی تنقیص وتذلیل تو دور کی بات،اس کا تصور نہیں کیا جانا چاہئے۔’’لَا تَسُبُّوْا أصْحَابِيْ۔‘‘ میرے اصحاب کو برا بھلا بالکل نہ کہو۔ صحابہ کرام کی عظمت اور ان کی قدرومنزلت کا اندازہ لگانے کے لیے اور ان کی تنقیص وتذلیل کی خطرناکی کو سمجھنے کے لیے ہمیں چند چیزوں پر غور کرنا ہوگا: ٭ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو جو ذمہ داریاں سپرد کی تھیں ان میں ایک ذمہ داری یہ تھی ’’یُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ‘‘ یعنی لوگوں کا تزکیہ وتربیت اور انہیں کتاب وسنت کے علم سے آراستہ کرنا۔صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگرد تھے، آپ ان کے معلم ومربی تھے۔صحابہ کو ہدف تنقید بنانے والے اور ان کو القاب سیئہ سے نوازنے والے گویا بہ زبان حال یہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ناکام معلم اور ناکام مربی تھے جنہوں نے اپنے پیچھے ایسے ایسے شاگردچھوڑے۔(نعوذ باللّٰه من ذلک) ٭ دوسری بات یہ کہ یہ صحابہ آپ کے ساتھی ،دوست اور مصاحب تھے اور یہ بات ہر شخص جانتا ہے ہے کہ اچھے شخص کے اچھے ساتھی اور برے وبدکردا ر آدمی کے برے
Flag Counter