Maktaba Wahhabi

285 - 303
کتاب کی، اس کے رسول کی، مسلمانوں کے حکام کی اور عام مسلمانوں کی۔ ’’نصیحۃ‘‘ کا مطلب ہوتا ہے خیر خواہی، یعنی متعلقہ شخص کی بھلائی اور بہتری کا مکمل طور سے خیال رکھنا اور اس میں کسی بھی طرح کی کمی یا خرابی نہ آنے دینا، ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا کلی طور پر خیر خواہ بنا رہے، اس کے ساتھ جو بھی معاملہ یا سلوک کرے وہ خیر اور بھلائی پر مبنی ہو، یہ دین کے بنیادی تقاضوں میں سے ہے۔اس کی اہمیت کے پیش نظر ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام سے ایمان وتوحید اور صوم وصلاۃ کی بیعت اور معاہدہ کے ساتھ ساتھ ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کی بھی بیعت لیتے تھے۔چنانچہ حضرت جریر بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:’’ بَایَعْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم علی إقَامِ الصَّلَاۃِ وَإیْتَائِ الزَّکَاۃِ، وَالنُّصْحِ لِکُلِّ مُسْلِمٍ‘‘(متفق علیہ)یعنی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز قائم کرنے ، زکاۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔(متفق علیہ) حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو شخص چاہتا ہے کہ اسے جہنم سے نجات حاصل ہوجائے اور جنت میں داخلہ مل جائے تو اس کی موت ایسی حالت میں آنی چاہیے کہ وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اور اسے چاہیے کہ لوگوں کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرے جیسا معاملہ اپنے ساتھ کیا جانا پسند کرے۔‘‘(مسلم) گویا ایک دوسرے کی خیر خواہی اور بہتری کے لیے شریعت نے ایک پیمانہ اور معیار بنا دیا کہ آدمی یہ دیکھے کہ ایک دوسرے کے ساتھ کیے جانے والے معاملے جو معاشرے میں رائج ہیں انہیں اپنے ساتھ کیا جانا وہ پسند کرتا ہے یا نہیں، اور اس تذبذب کو دور کرنے کی شکل یہ ہے کہ وہ اس بات پر غور کرے کہ اگر یہی معاملہ اس کے ساتھ کیا جائے گا تو وہ اس کو پسند کرے
Flag Counter