Maktaba Wahhabi

263 - 303
غور کریں کہ یہ سخت سزا ان لوگوں کی نہیں بیان کی جا رہی ہے جن کے اعمال نامے پورے کے پورے سیا ہ ہوں ، جن کے یہاں نیکیوں کا نام ونشان نہ ہو، بلکہ یہ ان لوگوں کی سزا ہے جو دنیا میں نمازی رہے ہوں گے ، روزہ کے پابند رہے ہوں گے ، اور زکاۃ وصدقات بھی ادا کرتے رہے ہوں گے ، لیکن ان کی یہ تمام عبادتیں حقوق العباد کی پامالی کی وجہ سے تتر بتر ہو جائیں گی ، بالآخر ان کی جھولی میں صرف گناہیں ہی گناہیں بچ جائیں گی جو انہیں جہنم میں لے جانے کا سبب بنیں گی۔ اسی مفہوم کی ایک دوسری حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جس آدمی پر بھی اپنے دوسرے(مسلمان)بھائی کا، اس کی عزت وآبرو سے متعلق یا کسی اور چیز سے متعلق کوئی حق ہو(یعنی اس کی بے عزتی کرکے یا کوئی اور زیادتی کرکے اس پرظلم کیا ہو)تو اس کو چاہیے کہ آج ہی(دنیا میں)اس کا ازالہ کرکے اس حق سے آزاد ہو جائے، قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس میں(ازالے کے لیے)کسی کے پاس دینار ودرہم نہیں ہوں گے ،(اور وہاں ازالے کی صورت پھر یہ ہوگی کہ)اگر اس کے پاس اعمال صالحہ ہوں گے تو اس کے ظلم کے بہ قدر لے لیے جائیں گے ،(اور مظلومین میں تقسیم کر دیے جائیں گے)اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہیں ہوں گی تو اس کے ساتھی(صاحب حق)کی برائیاں لے کر اس پر لاد دی جائیں گی۔‘‘(صحیح بخاری) آدمی کی عبادت گزاری اگر اس کی زندگی میں سدھار نہیں لاتی اور اس کے اخلاق وکردار کو بہتر نہیں بناتی تو ایسی عبادت کس کام کی ، اسی لیے قرآن میں کہا گیا ہے کہ﴿إِنَّ الصَّلَاۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ﴾’’نماز بے حیائی اور برائی کے کاموں سے روکتی ہے ‘‘۔ اللہ رب العزت سب کو برے انجام سے محفوظ رکھے ، آمین۔
Flag Counter