Maktaba Wahhabi

201 - 303
لوگ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔‘‘ اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ لوگ جب ظالم کو(ظلم کرتے ہوئے)دیکھیں اور اس کے ہاتھوں کو نہ پکڑیں(یعنی ظلم سے نہ روکیں)تو قریب ہے کہ اللہ تعالی ان سب کو اپنے عذاب کی لپیٹ میں لے لے۔(ابوداود، نسائی، ترمذی، بسند صحیح) اصلاح کے کام کو نظر انداز کرنے والے اگر یہ سمجھتے ہیں کہ معاشرہ کے بگاڑ کا ان سے کوئی لینا دینا نہیں ، خراب لوگوں کی خرابی ان کی ذات تک محدود رہتی ہے تو یہ ان کی بہت بڑی بھول اور غلط فہمی ہے، دوسروں کے بگاڑ کو اگر روکا نہ گیا اور اس کو پھیلنے دیا گیا تو وہ بگاڑ اچھے لوگوں کو بھی اپنی زد میں لے لے گا، ان کوبھی خراب کرے گا، اور پھر سب کے سب عذاب الٰہی کا شکار ہوں گے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مثال کے ذریعہ اس کو خوب واضح طور پر سمجھا دیا ہے۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اس شخص کی مثال جو اللہ کی حدود کو قائم کرنے والا ہے اور اس کی جو ان حدوں میں مبتلا ہونے والا ہے(یعنی اصلاح کا کام کرنے والے اور معصیت میں مبتلا رہنے والے کی مثال)ان لوگوں کی طرح ہے(جو ایک کشتی پر سوار ہوئے)انہوں نے کشتی کے(اوپر اور نیچے والے حصوں کے لیے)قرعہ اندازی کی، بعض اس کی بالائی منزل پر اور بعض نچلی منزل پر بیٹھ گئے، نچلی منزل والوں کو جب پانی لینے کی طلب ہوتی تو وہ اوپر آتے اور وہاں بیٹھے لوگوں کے پاس سے گزرتے(جو انہیں ناگوار گذرتا)چنانچہ نچلی منزل والوں نے سوچا کہ اگر ہم اپنے(نچلے)حصے میں سوراخ کرلیں(تاکہ اوپر جانے کے بجائے سوراخ ہی سے پانی لے لیں)اور اپنے اوپر والوں کو تکلیف نہ دیں(تو کیا اچھا ہو)تو اگر اوپر والے نیچے والوں کو ان کے منصوبے پر عمل کرنے کے لیے چھوڑ دیں(انہیں سوراخ کرنے سے نہ روکیں اور وہ سوراخ کرلیں)تو سب کے سب ہلاک ہوجائیں گے(کیوں کہ سوراخ ہوتے ہی ساری کشتی میں پانی جمع ہوجائے گا جس سے کشتی تمام مسافرین سمیت غرق آب ہوجائے
Flag Counter