Maktaba Wahhabi

188 - 303
نظام کے خلاف لب کشائی کرنے یا آواز اٹھانے کی اپنے اندر ہمت نہیں پاتے۔اسلامی اور سماجی مصلحین بھی اس مسئلہ کو چھیڑنے سے عموماً گریز ہی کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس نظام کے پیچھے یہ ذہنیت کارفرماہوتی ہے کہ جب خاندان کے تمام افراد ایک ساتھ رہیں گے تو اس خاندان کو اپنے ماحول میں تسلط اور بالادستی حاصل ہوگی اور دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ پورے خاندان کی جائداد اکٹھا رہے گی جس سے گھر کی مالی حیثیت مستحکم رہے گی، گھر بٹیں گے تو جائداد تقسیم ہوجائے گی ،جس کے نتیجہ میں خاندان مالی حیثیت سے بھی کمزور ہوجائے گا۔ لیکن اس موضوع پر سنجیدگی سے غور کیا جائے توکچھ دوسرے پہلو سامنے آتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ مستقل مکان اور اس سے ملحق سہولیات کا ہر انسان فطری طور پر طلب گار ہوتا ہے، کیوں کہ پرائیویسی انسان کی فطرت میں داخل ہے، اگر یہ سہولت اسے حاصل نہ ہوتو وہ مسلسل بے چینی کا شکار رہتا ہے۔جنسی تسکین کا معاملہ بھی ایک طرح سے نفسیات سے ہی جڑا ہوا ہے، ہر شادی شدہ شخص یا جوڑے کے لیے مکان کی الگ یونٹ ہی یہ تسکین فراہم کرسکتی ہے۔روایتوں پر غور کریں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ کے ساتھ غسل جنابت ایک برتن کے پانی سے کرتے تھے، حضرت ام سلمہ کے بارے میں بھی اس طرح کی روایتیں آتی ہیں۔ایسے ہی حالت حیض میں حضرت عائشہ کا کسی برتن سے پانی پینا پھر برتن کی اسی جگہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پانی پینا جہاں سے حضرت عائشہ پی چکی ہوتیں، اسی کیفیت کے ساتھ دونوں کا گوشت کا ٹکڑا کھانا اور اس جیسے دوسرے واقعات کو سامنے رکھیں اور موجودہ طرز معاشرت کو دیکھیں تو اس قسم کے بے تکلف معاشرت کا دور دور تک امکان بھی نظر نہیں آئے گا۔ قرآن میں عورت کو مرد کی کھیتی قرار دیا گیا ہے، ایسے ہی دونوں کو ایک دوسرے کا لباس بتلایا گیا ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید کی ہے کہ جب شوہر اپنی بیوی کو خاص
Flag Counter