Maktaba Wahhabi

13 - 303
اظہار ناراضگی، اور اس قسم کی دوسری صورتیں اکثر وبیشتر سامنے آتی رہتی ہیں۔ جو حدیثیں ذکر کی گئیں اور اس مفہوم کی دوسری احادیث ایسے تمام لوگوں کی تنبیہ کے لیے کافی ہیں، اس مناسبت سے کچھ اور حدیثیں ذکر نا مناسب معلوم ہوتا ہے جو اس قسم کے اعمال کے انجام کو بیان کرتی ہیں: حدیث کی متعدد کتابوں کو محدثین نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث سے شروع کیا ہے جس کے ابتدائی الفاظ یہ ہیں:’’إنَّمَا الأعْمَالُ بِالنِّیَّات۔۔۔‘‘ یعنی اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، ہر شخص کو اس کی(اچھی یا بری)نیت کے مطابق(اچھا یا برا)بدلہ ملے گا، پس جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہوگی اس کی ہجرت اللہ اور رسول کی طرف سمجھی جائے گی، اور جس نے دنیا حاصل کرنے کے لیے یا کسی عورت سے نکاح کی غرض سے ہجرت کی تو اس کی ہجرت ان ہی مقاصد کے لیے ہوگی۔(متفق علیہ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان مروی ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’میں تمام شریکوں کے مقابلے میں شرک سے سب سے زیادہ بے نیاز ہوں، جو کوئی ایسا عمل کرے جس میں وہ میرے ساتھ میرے علاوہ کسی اور کو بھی شریک کرے تو میں اس کو اس کے شرک سمیت چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘(مسلم) حضرت جندب بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص دکھلاوے کے لیے کوئی عمل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے رسوا کرے گا، اور جو کوئی نیک عمل لوگوں کی نظروں میں بڑا بننے کے لیے کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے چھپے عیبوں کو لوگوں کے سامنے ظاہر کردے گا۔‘‘(بخاری ومسلم) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے جن تین لوگوں کو جہنم رسید کیا جائے گا ان میں ایک عالم، ایک دولت مند اور ایک مجاہد ہوگا، عالم نے اپنے کو مولانا اور حافظ وقاری کہلوانے کے لیے علم سیکھا تھا، دولت مند اپنے کو سخی اور فیاض مشہور کرانے کے لیے صدقہ وخیرات کیا کرتا تھا، اور مجاہد
Flag Counter