Maktaba Wahhabi

78 - 103
کرے اور اس کی نیّت میں ذرا بھی یہ فتور آجائے کہ ان کاموں کی وجہ سے لوگ مجھے عابد و زاہد، پرہیز گار و پارسا اور حاجی کہیں گے یا پھر اس کی سوچ دوسرا رخ اختیار کرلے کہ وہ اگر صدقہ و خیرات نہیں کرے گا تو لوگ کیا کہیں گے کہ پڑوس میں لوگ بھوکوں مر رہے ہیں اور یہ ان کی کوئی مدد ہی نہیں کرتا ، اگر اس سال بھی حج پر نہ گیا یا قربانی نہ کی تو برادری یا پہچان والوں میں ناک کٹ جائے گی۔جو شخص بھی ناک کو بچانے کے لیٔے نمود و نمائش اور ریاء کاری و دکھلاوے کے طور پر کوئی نیک کام کرے تو رضائے الٰہی کے حصول کی نیّت خالص نہ رہی بلکہ رضائے الٰہی کے ساتھ رضائے برادری وغیرہ بھی شامل ہوگئی ،اور جو اعمال رضائے برادری یا ناک کے تحفّظ کا نسخہ بن جائیں انہیں بھلا اللہ تعالیٰ کے یہاں شرف ِ قبولیّت کیسے حاصل ہوگا ؟ریاء کاری تو عمل کو کھوٹے سکّے کی طرح بنادیتی ہے جیسے وہ بازار میں نہیں چل سکتا ،ایسے ہی کھوٹی نیّت سے کیا گیا عمل بھی دربار ِ الٰہی میں مقبول و منظور نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرۃ کی آیت : ۲۶۴ میں فرمایا ہے: {یَـٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اَمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقَٰـتِکُمْ بِالْمَنِّ وَ الْأَذَٰی کَالَّذِيْ یُنْفِقُ مَالَہٗ رِئَآئَ النَّاسِ وَلَا یُوْمِنُ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْہِ تُرَابٌ فَأَصَابَہٗ وَابِلٌ فَتَرَکَہٗ صَلْداً لَّا یَقْدِرُوْنَ عَلَٰٰی شَیْئٍ مِّمَّا کَسَبُوْا وَاللّٰہُ لَا یَہْدِي الْقَوْمَ الْکَافِرِیْنَ علیہم السلام } ’’اے ایمان والو ! اپنے صدقات کو احسان جتلا کر اور ایذاء پہنچا کر اُس شخص کی طرح خاک میں نہ ملا دو جو اپنا مال محض لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے اور اللہ پر اور روزِ آخرت پر ایمان نہیں لاتا ۔ اُس کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چٹان تھی جس پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی، اُس پر زور کا مینہ برسا تو ساری مٹی بہہ گئی اور صاف چٹان کی چٹان رہ گئی ۔ ایسے اپنے نزدیک خیرات کر کے جو نیکی کماتے ہیں اُس سے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں آتا اور اللہ کافر قوم کو ہدایت نہیں دیتا ۔‘‘
Flag Counter