Maktaba Wahhabi

44 - 75
داؤد کی اس روایت کا صحیح محلِ وقوع معلوم ہوجائے گا اور حقیقت یہ ہے کہ اس سلسلہ میں بالکل واضح اور صحیح روایت موجود ہے جو اس اختلاف کا دو ٹوک الفاظ میں فیصلہ کردیتی ہے چنانچہ وہ روایت ملاحظہ فرمائیں: (عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ أَیُّوْبَ عَنِ ابْنِ سِیْرِیْنَ قَالَ: کَانَ أُبَیٌّ یَقُوْمُ لِلَّناسِ عَلٰی عَہْدِ عُمَرَ فِیْ رَمَضَانَ، فَاِذَا کَانَ النِّصْفُ جَہَرَ بِالْقُنُوْتِ بَعْدَ الرَّکْعَۃِ، فَاِذَا تَمَّتْ عِشْرُوْنَ لَیْلَۃً اِنْصَرَفَ اِلٰی أَہْلِہٖ وَ قَامَ لِلنَّاسِ أَبُوْ حَلِیْمَۃَ مُعَاذُ الْقَارِیُٔ وَ جَہَرَ بِالْقُنُوْتِ فِیْ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، حَتّٰی کَانُوْا مِمَّا یَسْمَعُوْنَہٗ یَقُوْلُ: اَللّٰہُمَّ قَحَطَ الْمَطَرُ، فَیَقُوْلُوْنَ: آمِیْنَ، فَیَقُوْلُ: مَا أَسْرَعَ مَا تَقُوْلُوْنَ آمِیْنَ۔ دَعُوْنِیْ حَتّٰی أَدْعُوْ) ’’ امام ابن سیرین رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابیّ بن کعب رضی اللہ عنہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں رمضان المبارک کے مہینے میں لوگوں کی امامت کیا کرتے تھے اور جب نصف رمضان گزر جاتا تو وہ رکوع کے بعد قنوت جہر (بلند آواز) سے پڑھتے تھے ۔ جب بیس راتیں(عشرون لیلۃ) گزر جاتیں تو وہ (ابیّ بن کعب رضی اللہ عنہ ) اپنے گھروالوں کے ہاں چلے جاتے اور لوگوں کی امامت حضرت ابوحلیمہ معاذ القاری رضی اللہ عنہ کرواتے اور وہ آخری عشرہ میں قنوت جہر سے پڑھتے تھے۔ یہاں تک کہ مقتدی ان کی دعائیں سنتے تھے۔ وہ (حضرت ابو حلیمہ رضی اللہ عنہ ) کہتے: ’’اے اللہ! بارشیں نہ ہونے سے قحط سالی ہوگئی ہے…۔‘‘ اسی پر لوگ آمین کہہ دیتے تو حضرت ابوحلیمہ رضی اللہ عنہ ان سے کہتے: تم آمین کہنے میں بہت جلدی کرتے ہو مجھے چھوڑو تاکہ میں دعاء مکمل کرلیا کروں۔‘‘ (اور بارش طلب کرنے کی دعاء کے بعد تم آمین کہو)۔ [1]
Flag Counter