Maktaba Wahhabi

27 - 75
’’ہمیں شجاع بن محمد نے حدیث بیان کی ، ہمیں ھاشم نے حدیث بیان کی ، ہمیں یونس بن عبید نے حسن کے واسطے سے خبر دی کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو حضرت اُبی ّبن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت پر اکٹھے کیا اور وہ لوگوں کو بیس رکعتیں پڑھاتے تھے ، اور دعاء ِقنوت صرف نصف ِ ثانی میں ہی کرتے تھے ‘‘ حالانکہ اسی حدیث میں ابوداؤد طبع مصر(۲/۶۵) میں [عِشْرِیْنَ لَیْلَۃً] ہے اور مشکوٰۃ طبع لاہور میں بھی [لَیْلَۃً] ہی ہے۔ ’’مظاہرِ حق‘‘ طبع لکھنو میں بھی [لَیْلَۃً]ہی ہے ، اس لیٔے [عِشْرِیْنَ لَیْلَۃً] کی جگہ [عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً](۲۰رکعت) فرید بُک اسٹال والے مترجم عبد الحکیم خان اختر کی اختراع معلوم ہوتی ہے اور اُس کے حاشیہ پر مترجم نے ایک نوٹ درج کیا ہے جو حسب ِذیل ہے: ’’ اس حدیث کے الفاظ [کَانَ یُصَلِّيْ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً] کا واضح مطلب یہ ہے کہ انہیں بیس رکعتیں پڑھاتے تھے، لیکن مولانا وحید الزمان صاحب نے ان لفظوں کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ بیس راتوں تک نماز پڑھا کرتے تھے ، اور[ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً]کا ’’بیس راتوں تک‘‘ ترجمہ کرکے ممکن ہے کہ علّامہ صاحب نے اپنے ہم خیال لوگوں کو مطمئن یا خوش کرلیا ہو لیکن ترجمانی کے پردہ میں حدیث کو بازیچۂ اطفال بنا کرخیانت اور دھاندلی کا ایسا ارتکاب کیا ہے کہ اہل ِ علم کوہرگز زیب نہیں دیتا۔ اختلافی مسائل میں اپنے موقف کو درست منوانے کے لیٔے احادیث میں کتر بیونت کر جانا اہل ِ علم کا شیوہ نہیں۔وَاللّٰہُ أَعْلَمْ ‘‘ اب استفسار یہ ہے کہ سنن ابی داؤد کے نسخے میں الفاظ [عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً]صحیح ہیں یا [لَیْلَۃً]اور یہ کتر بیونت کس زمانہ میں ہوئی ؟ اور اس کا بانی کون ہے ؟ [آپ کا خادم علی محمد، خطیب جامع مسجد اہلحدیث مداد، ڈاک خانہ خاص براستہ جنڈیالہ شیرخان، ضلع و تحصیل شیخوپورہ ]
Flag Counter