Maktaba Wahhabi

67 - 67
10. دونوں کے مزاج میں اس قدر اختلاف ہو کہ ان کا آپس میں نباہ ممکن نہ ہو ۔ اس طرح کے شرعی اعذار کی موجودگی میں بیوی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ خاوندد سے لیا ہوا حق مہر ( پورا یا کچھ حصہ ‘جتنے پر اتفاق ہو) واپس کردے اور اس سے طلاق لے لے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ ﴾ [ البقرۃ : ۲۲۹ ] ’’ ہاں اگر تمہیں اس بات کا خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ تعالی کی حدود کی پابندی نہ کر سکیں گے تو پھر عورت اگر کچھ دے دلا کر اپنی گلو خلاصی کرا لے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں ۔‘‘ اس سلسلے میں حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کا قصہ بہت معروف ہے جسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیاہے ۔ اور وہ اِس طرح ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور انھوں نے اپنے خاوند کی شکایت کی ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس کا باغ اسے واپس کردو گی؟ انھوں نے کہا : جی ہاں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ثابت رضی اللہ عنہ کو فرمایا : اپنا باغ واپس لے لو اور اسے طلاق دے دو ۔ ‘‘ [ البخاری ۔ الطلاق باب الخلع : ۵۲۷۳ ] خواتین کو یہ بات خوب ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ وہ کسی شرعی عذر کی بناء پر ہی خلع لے سکتی ہے ۔ ورنہ اگر وہ بغیر کسی معقول عذر کے خلع کا مطالبہ کریں گی تو انھیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صحیح حدیث کے مطابق جنت کی خوشبو تک نصیب نہ ہوگی ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ( أَیُّمَا امْرَأَۃٍ اخْتَلَعَتْ مِنْ َزوْجِہَا مِنْ غَیْرِ بَأْسٍ لَمْ تَرَحْ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ ) [ ترمذی : ۱۱۸۶۔ وصححہ الألبانی ]
Flag Counter