Maktaba Wahhabi

62 - 93
۵۔فوت شدہ بزرگوں کے مزاروں سے فیض حاصل ہوتا ہے اور اس ارادے سے وہاں جانا کارِ ثواب ہے۔ اس تعلیم کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک کے کلیدی عہدوں پر جو لوگ فائز ہوتے ہیں وہ عقیدہ توحید کی اشاعت یا تنفیذ کے مقدس فریضہ کو سرانجام دینا تو درکنار ‘شرک کی اشاعت اوراس کی ترویج کا باعث بنتے ہیں چند تلخ حقائق ملاحظہ فرمائیں ۔ (۱)صدر ایوب خاں ایک ننگے پیر (بابا لال شاہ)کے مرید تھے جومری کے جنگلات میں رہا کرتا تھا اور اپنے معتقدین کو گالیاں بکتا تھا اور پتھرمارتا تھا اس وقت کی آدھی کابینہ اورہمارے بہت سے جرنیل بھی ا س کے مرید تھے۔[1] (۲) ہمارے معاشرے میں ’’جسٹس‘‘کو جو مقام اور مرتبہ حاصل ہے اس سے ہر آدمی واقف ہے محترم جسٹس محمد الیاس صاحب ‘حضرت سید کبیر الدین المعروف شاہد ولہ (گجرات)کے بارے میں ایک مضمون لکھتے ہوئے رقمطراز ہیں ’’آپ کا مزار اقدس شہر کے وسط میں ہے اگر دنیا میں نہیں تو برصغیر پاک وہند میں یہ واحد بلند ہستی ہیں جن کے دربار پُر انوار پر انسان کا نذرانہ پیش کیاجاتا ہے ‘وہ اس طرح کہ جن کے ہاں اولاد نہ ہو وہ آپ کے دربار مبارک پر حاضر ہوتے ہیں اور اولاد کے لئے دعا کرتے ہیں ساتھ ہی یہ منت مانتے ہیں کہ جو پہلی اولاد ہوگی وہ ان کی نذر کی جائے گی اس جو اولین بچہ پیدا ہوتا ہے اسے عرف عام میں ’’شاہدولہ ‘‘کا چوہا کہا جاتا ہے اس بچے کو بطور نذرانہ دربار اقدس میں چھوڑدیا جاتا ہے اور پھر اس کی نگہداشت دربار شریف کے خدام کرتے ہیں بعد میں جو بچے پیدا ہوتے ہیں وہ عام بچوں کی طرح تندرست ہوتے ہیں روایت ہے کہ اگر کوئی شخص متذکرہ بالا منت مان کر پوری نہ کرے تو پھر اولین بچے کے بعد پیدا ہونے والے بچے بھی پہلے بچے کی طرح ہوتے ہیں‘‘[2] (۳)جناب جسٹس عثمان علی شاہ صاحب مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک انتہائی اعلیٰ اور اہم منصب ’’وفاقی محتسب اعلیٰ‘‘پر فائز ہیں ایک انٹرویومیں انہوں نے یہ انکشاف فرمایا ’’میرے دادا بھی
Flag Counter