Maktaba Wahhabi

38 - 93
ہے جو پوجا اور پرستش کے قابل ہیں اس عقیدہ کے تحت مشرکین اپنے ہاتھوں سے پتھروں کے خیالی خوبصورت مجسمے اور بت تراشتے ہیں پھر ان کی پوجا اور پرستش کرتے ہیں اور انہیں کو اپنا مشکل کشا اور حاجت روا مانتے ہیں بعض مشرک پتھروں کو تراشتے اور کوئی شکل دئیے بغیر قدرتی شکل میں اسے نہلا دھلا کر پھول وغیرہ پہنا کر اس کے آگفے سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور اس سے دعائیں فریادیں کرنے لگتے ہیں ۔اس قسم کے تمام تراشیدہ بت ‘مجسمے ‘مورتیاں اور پتھر وغیرہ قرآن مجید کی اصطلاح میں ’’من دونال‘‘کہلاتے ہیں۔ مشرکین میں بت پرستی کی وجہ ایک دوسرا بھی عقیدہ تھا جس کا تذکرہ امام ابن کثیر رحمہاﷲنے سورہ نوح کی آیت نمبر ۲۳ کی تفسیر میں کیا ہے[1]اور وہ یہ کہ حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک صالح ولی اللہ مسلمان فوت ہوا تو اس کے عقیدت مند رونے اور پیٹنے لگے صدمہ سے نڈھال اس کی قبر پر آکر بیٹھ گئے ابلیس ان کے پاس انسانی شکل میں آیا اور کہاکہ اس بزرگ کے نام کی یادگار کیوں قائم نہیں کرلیتے تاکہ ہر وقت تمہارے سامنے رہے اور تم اسے بھولنے نہ پاؤاس نیک اور صالح بندے کے عقیدتمندوں نے یہ تجویز پسند کی تو ابلیس نے خود ہی اس بزرگ کی تصویر بناکرانہیں مہیا کردی ‘جسے دیکھ کر وہ اپنے بزرگ کی یاد تازہ کرتے اور اس کی عبادت اور زہد کے قصے آپس میں بیان کرتے رہتے ۔اس کے بعد دوبارہ ابلیس ان کے پاس آیا اور کہاکہ آپ سب حضرات کو تکلیف کرکے یہاں آنا پڑتا ہے ‘کیا میں تم سب کو الگ الگ تصویریں نہ بنادوں تاکہ تم لوگ اپنے اپنے گھروں میں انہیں رکھ لو؟عقیدتمندوں نے اس تجویز کو بھی پسند کیا اور ابلیس نے انہیں اس بزرگ کی تصویریں یا بت الگ الگ مہیا کردئیے جو انہوں نے اپنے اپنے گھروں میں رکھ لیے۔ان عقیدتمندوں نے یہ تصویریں اوربت یادگار کے طور پر اپنے پاس محفوظ رکھ لئے لیکن ان کی دوسری نسل نے آہستہ آہستہ ان تصویروں اور بتوں کی پوجا اور پرستش شروع کردی ۔اس بزرگ کا نام ’’ود‘‘تھا اور یہی پہلا بت تھا جس کی دنیا میں اﷲتعالیٰ کے سوا پوجا اور پرستش کی گئی ’’ود‘‘کے علاوہ قوم نوح دیگر جن بتوں کی پوجا کرتی تھی ان کے نام سواع‘یغوث‘یعوق اور نسر تھے یہ سب کے سب اپنی قوم کے صالح اور نیک لوگ تھے (بخاری)
Flag Counter