Maktaba Wahhabi

76 - 277
کمائے جاتے ہیں اور یہ اپنے رب کے حکم سے ہر وقت پھل دیتا رہتا ہے۔اسی طرح ایمان کے درخت کی مثال ہے جس کی جڑ علم اور عقیدے کے اعتبار سے مومن کے دل میں مضبوط ہوتی ہے اور اس کی شاخیں پاکیزہ کلمات،اعمال صالحہ،پسندیدہ اخلاق اور اچھے آداب کی شکل میں ہمیشہ آسمان میں پھیلی رہتی ہیں۔اور اللہ تعالیٰ کی طرف وہ اعمال واقوال جاتے رہتے ہیں جو ایمان کے درخت سے نکلتے ہیں اور وہ مومن کیلئے نفع بخش ہوتے ہیں۔’‘ ٭ یہ وہ کلمہ طیبہ ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے ہر آدمی کے دل میں رکھ دیا ہے اور اس نے انھیں اس پر گواہ بنایا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَإِذْ أَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْ آدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَأَشْہَدَہُمْ عَلٰی أَنْفُسِہِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی شَہِدْنَا۔۔۔﴾[الأعراف:۱۷۲] ترجمہ:’’اور جب آپ کے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی اولاد کو نکالا اور انھیں خود اپنے اوپر گواہ بنا کر پوچھا:کیا میں تمہارا رب نہیں ؟ وہ کہنے لگے:کیوں نہیں،ہم اس کی گواہی دیتے ہیں۔۔’‘ الشیخ ابو بکر الجزائری اپنی تفسیر میں کہتے ہیں: ‘’یہ ایک قابل ذکر اور انتہائی اہم حادثہ ہے کیونکہ اس میں عبرت کی کئی باتیں موجود ہیں۔اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا،پھر اسے اپنی قدرت سے قوتِ گویائی عطا کی۔چنانچہ اس نے کلام کیا اور اللہ تعالیٰ کے خطاب کو سمجھا۔اس سے گواہی طلب کی تو اس نے گواہی بھی دی اور اسے حکم دیا تو اس نے عمل کیا۔یہی وہ عہدِ عام ہے جو بنو آدم سے لیا گیا اور روزِ قیامت ان سے اسی کے متعلق پوچھ گچھ بھی کی جائے گی۔‘‘
Flag Counter