Maktaba Wahhabi

141 - 277
چھٹی شرط:انقیاد انقیاد خضوع،تابعداری اور سر تسلیم خم کردینے کو کہتے ہیں۔اور یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ لا إلہ إلا اﷲ اور اس کے تقاضوں کا ظاہری وباطنی طور پر تابع ہوجائے اور یہ اس وقت ہوگا جب انسان اﷲ تعالیٰ کے عائد کردہ فرائض پر عمل پیرا ہو اور اسکی حرام کردہ چیزوں کو ترک کردے۔ارشادِ ربانی ہے:﴿وَأَنِیْبُوْٓا اِلٰی رَبِّکُمْ وََأَسْلِمُوْا لَہٗ مِنْ قَبْلِ أَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لاَ تُنْصَرُوْنَ﴾[الزمر:۵۴] ترجمہ:’’اور اپنے رب کی طرف رجوع کرو اور اس کے مطیع بن جاؤ اس سے پہلے کہ تم پر عذاب آجائے اور پھر تمہاری مدد نہ کی جاسکے۔‘‘ امام بغوی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ(وَأَنِیْبُوْٓا اِلٰی رَبِّکُمْ)کا معنی ہے:اللہ تعالیٰ کی طرف اطاعت وفرمانبرداری کے ساتھ لوٹنا اور(وََأَسْلِمُوْا لَہٗ)کا معنی ہے:اللہ تعالیٰ کیلئے توحید کو خالص کرنا۔[تفسیر البغوی:۴/۸۵] اور الشیخ ابن السعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف جلدی رجوع کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:(وَأَنِیْبُوْٓا اِلٰی رَبِّکُمْ)یعنی تم اپنے دلوں کے ساتھ اور اسی طرح(وََأَسْلِمُوْا لَہٗ)یعنی اپنے اعضاء کے ساتھ اس کی طرف رجوع کرو۔اور یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ جب صرف انابت کا حکم دیا جائے تو اس میں دل اور اعضاء کے تمام اعمال شامل ہوتے ہیں۔اور جب انابت کے ساتھ اسلام(وََأَسْلِمُوْا لَہٗ)کا حکم بھی ہو تو انابت سے مراد دل کے ساتھ اور اسلام سے مراد اعضاء کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کرنا ہوتا ہے۔ اس آیتِ کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ اخلاص ایک اہم شرط ہے۔ اگر اخلاص نہیں ہو گا تو ظاہری وباطنی تمام اعمال کچھ بھی فائدہ مند نہیں ہونگے۔ اس کے
Flag Counter