Maktaba Wahhabi

259 - 277
میں اس کی وضاحت کی ہے۔ اس کے علاوہ ہم اس آیت ِ کریمہ کو جشن میلاد کی مشروعیت کیلئے بطوردلیل پیش کرنے والوں سے عرض کرتے ہیں کہ آپ نے اللہ کی رحمت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت مراد لی ہے اور اس کی مزید تائیدکیلئے آیت﴿وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ﴾پیش کی ہے۔حالانکہ یہ آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے بارے میں ہے اور آپ کو رسالت تو آپ کی ولادت کے چالیس سال بعد ملی۔اور جب ولادت اور رسالت کے درمیان چالیس سال کا فاصلہ ہے تو اس آیت کو کیسے دلیل بنایا جا سکتا ہے؟ اسی طرح وہ تمام نصوص جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے رحمت کا وصف بیان کیا گیا ہے ان میں آپ کو آپ کی بعثت کے بعد رحمت کے وصف کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ان میں سے کسی ایک نص میں بھی آپ کی ولادت کو رحمت کے وصف کے ساتھ ذکر نہیں کیا گیا۔لہذا ان سے استدلال کرنا درست نہیں ہے۔ اسی طرح ایک دلیل وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے خود عقیقہ کیا۔اس کو بیہقی رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے اور امام سیوطی رحمہ اللہ نے اسے میلاد کی ایک دلیل کے طور پر ذکر کیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور اہلِ علم نے اسے منکر کہا ہے۔اور امام لک رحمہ اللہ سے جب اس کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا:’’آپ کا کیا خیال ہے کہ جن صحابۂ کریم رضی اللہ عنہم کی طرف سے جاہلیت میں عقیقہ نہیں کیا گیا تھا کیا انھوں نے بھی اسلام قبول کرنے کے بعد اپنی طرف سے عقیقہ کیا ؟ یہ محض باطل کہانیاں ہیں،اس کے علاوہ کچھ نہیں۔‘‘[المقدمات الممہدات لبیان ما اقتضتہ رسوم المدونۃ من الأحکام الشرعیات۔۔لابن رشد ۲/۱۵]
Flag Counter