Maktaba Wahhabi

187 - 277
اس کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچا زاد بھائی ورقۃ بن نوفل بن اسد بن عبد العزی کے پاس لے گئیں جو کہ جاہلیت کے دور میں نصرانی ہو گئے تھے اور عبرانی زبان میں لکھنا پڑھنا جانتے تھے اوراسی زبان میں انجیل بھی لکھا کرتے تھے۔وہ عمر رسیدہ تھے اور آنکھوں کی بصارت کھو چکے تھے۔چنانچہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا:اے میرے چچا زاد بھائی ! ذرا اپنے بھتیجے سے اس کا حال سنیں۔تو ورقۃ بن نوفل نے کہا:اے میرے بھتیجے ! آپ نے کیا دیکھا ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ دیکھا تھا پورا حال سنا دیا۔تب ورقۃ بن نوفل نے کہا: (ہٰذَا النَّامُوْسُ الَّذِیْ نَزَّلَ اللّٰہُ عَلٰی مُوْسٰی،یَا لَیْتَنِیْ فِیْہَا جَذَعٌ،لَیْتَنِیْ أَکُوْنُ حَیًّا إِذْ یُخْرِجُکَ قَوْمُکَ)’’یہ تو وہی ناموس(فرشتہ)ہے جو اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام پر نازل کیا تھا۔کاش میں اس وقت جوان ہوتا،کاش میں اس وقت زندہ ہوتا جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی’‘ یہ سن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(أَوَ مُخْرِجِیَّ ہُمْ ؟) ‘’کیا وہ مجھے نکال دیں گے ؟’‘ ورقۃ بن نوفل نے کہا:ہاں کیونکہ آپ جو دین لے کر آئے ہیں اس طرح جب بھی کوئی شخص لے کر آیا اس سے دشمنی کی گئی۔ اور اگر مجھے وہ زمانہ میسر آیا(جب یہ لوگ آپ کے دشمن بن جائیں گے)تو میں آپ کی بھرپور مدد کرونگا۔ پھر کچھ عرصہ بعد ہی ورقۃ بن نوفل کا انتقال ہو گیا اور وحی کا سلسلہ بھی کچھ عرصہ کیلئے منقطع ہو گیا۔[بخاری:۴،مسلم:۱۶۰]
Flag Counter