Maktaba Wahhabi

143 - 277
طلوع ہونا،یا دھواں،یا دجال،یا جانور،یا تمہاری موت،یا قیامت۔’‘ مذکورہ آیتِ کریمہ اور اس حدیث شریف میں ایک ہی حکم دیا گیا ہے اور وہ ہے جلدی عمل کرنا اوریہ انابت إلی اللہ کا ایک حصہ ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَمَنْ أَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْہَہُ لِلّٰہِ وَہُوَ مُحْسِنٌ وَّاتَّبَعَ مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفًا﴾[النساء:۱۲۵] ترجمہ:’’باعتبار دین کے اس آدمی سے زیادہ اچھا کون ہو گا جو اپنے آپ کو اللہ کے سامنے جھکا دے اور اس کا عمل بھی اچھا ہو اور ساتھ ہی موحد ابراہیم(علیہ السلام)کے دین کی پیروی کر رہا ہو ؟’‘ یعنی اس آدمی سے بہتر کوئی نہیں جس نے اپنے تمام اقوال واعمال میں اسلام اور احسان دونوں کو جمع کیا۔اور اس کا معنی یہ ہے کہ اس نے ان میں اللہ تعالیٰ کیلئے اخلاص اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے متابعت ظاہر کی۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: (أَسْلَمَ وَجْہَہُ لِلّٰہِ)کا معنی ہے:اللہ عزوجلّ کیلئے عمل کو خالص کرنا اور صرف اسی کی رضا کے حصول اور اجرو ثواب کو پانے کیلئے عمل بجا لانا۔اور(وَہُوَ مُحْسِنٌ)کا معنی ہے:اپنے عمل میں اللہ کی شریعت کی پابندی کرنا اور اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جو ہدایت اور دینِ حق دے کر بھیجا اسی کے مطابق عمل کرنا۔یہ دونوں شرطیں ایسی ہیں کہ کسی عمل کرنے والے کا عمل ان کے بغیر قبول نہیں ہو تا۔یعنی ایک تو یہ ہے کہ اس کا عمل خالصتا اللہ کی رضا کیلئے ہو۔اور دوسری یہ ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مطابق ہو۔گویا اس کے باطن میں اخلاص ہو اور ظاہر میں متابعت ہو۔اور جب کسی عمل میں ان دونوں شرطوں میں سے کوئی ایک شرط مفقود ہو تو وہ فاسد ہوتا ہے۔چنانچہ
Flag Counter