Maktaba Wahhabi

8 - 234
رکھی ہو تو پھر اس سزا پر بھی پورا پورا عمل کروائے اور اس سزا میں کسی بھی قسم کی لچک یا ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کرے۔ اور حدود نافذ کرنے میں کبھی کسی کی سفارش، رشوت، دھونس یا دھمکی حتی کہ پوری دنیا کی طاقت کے سامنے بھی سرنگوں نہ ہو اور کوئی بھی ’’سمجھوتہ‘‘ کئے بغیر اس حد کو نافذ کر دے تو پھر ’’قائد‘‘ کی شخصیت سے تمام لوگ خوف کھائیں گے اور کسی کو بھی دم مارنے کی جرأت نہیں ہوگی۔ مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش خاندان کی عورت فاطمہ پر چوری کا الزام ثابت ہونے پر اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمایا تو اُسامہ رضی اللہ عنہ کی سفارش پر اُن کو ڈانٹ دیا اور پوری اُمت کو درسِ عبرت دیا کہ تم سے پہلی قومیں اسی لیے برباد ہو گئیں کہ اُن کا بڑا اگر کوئی گناہ کرتا تو اُس کو چھوڑ دیتے اور اگر کمزور شخص گناہ کرتا تو اُس پر حد جاری کر دیتے۔ چنانچہ یہی وجہ تھی کہ رسول اکرم ا کے سامنے کسی کو بات کرنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔ اسی طرح سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے پہلے جب مسلمانوں کا ’’قائد‘‘ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا تو لوگوں نے عرض کیا کہ ان میں اور تو کچھ بھی نہیں صرف ’’سخت مزاج‘‘ ہیں۔ گویا وہ عمر رضی اللہ عنہ کی شخصیت سے خوف کھاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے شہروں کے درمیان سفر کرنے والی ایک عورت اپنے پورے زیورات کے ساتھ کئی ہفتوں تک اکیلی سفر کرتی لیکن اُسے کسی چوری اور ڈاکہ زنی کا ڈر یا خوف نہیںہوتا تھا۔ چنانچہ اسی بات کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ہے: وَ لَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ(البقرۃ:179) اور تمہارے لیے قصاص(یعنی حدود کے نفاذ) میں ہی زندگی(کا راز پوشیدہ) ہے اے عقلمندو۔ تاکہ تم(ناکامی و نامرادی اور معاشرتی بگاڑ سے) بچ جاؤ۔ 2۔ تمام لوگ اپنے قائد سے محبت کرتے ہوں۔ قائد کی دوسری انتہائی اعلیٰ ترین خوبی یہ ہے کہ لوگ اس سے محبت بھی کرتے ہوں۔ اپنے قائد کی بات کو خوش دلی سے ماننا اور عمل کرنا، قائد کی ہر ادا کو سمجھنا، اس سے بحث و تکرار کئے بغیر اس کے قول و فعل کو اختیار کرنا، اختلاف رائے رکھنے کے باوجود قائد کی بات کو ہی ترجیح دینا اور اپنی ذات پر قائد کو
Flag Counter