Maktaba Wahhabi

7 - 234
یعنی ’’وہ اللہ جسے چاہے حکمت اور دانائی دیتا ہے اور جو شخص حکمت اور سمجھ دیا گیا وہ بہت ساری بھلائی دیا گیا اور نصیحت صرف عقلمند ہی حاصل کرتے ہیں‘‘۔(بقرہ:269)۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی نصرت و فتح پر یقین کامل اور غیر متزلزل ایمان بھی اسی طاقت کا خاصہ ہیں۔ اور دراصل یہی چیزیں قوموں کے کسی بھی معرکے اور پنجہ آزمائی میں فتح و شکست میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ طاقت کے بعد جو سب سے بڑی خوبی ہونی چاہیئے وہ اخلاص ہے۔ اخلاص، اللہ کے ساتھ اور اللہ کے بندوں کے ساتھ۔ اخلاص ہے تو باقی عمل قابل قبول ہیں۔ اخلاص کی مثال روح کی سی ہے کہ روح ہے تو بدن ’’زندگی‘‘ کا حسین نمونہ ہے۔ کلمہء طیبہ کی بنیاد اخلاص پر موقوف ہے۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن میں اخلاص کا پیغام اور اقرار ہے۔ اَلَا ِاللّٰهِ اَلدِّیْنُ الْخَالِص، زندگی گزارنے کے طریقے اور راستے یعنی ’’دین‘‘ میں اخلاص ہے۔ وَمَا اُمِرُوْا اِلَّا لِیَعْبُدُ اللّٰه مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن اور رَبِّ کائنات کا حکم بھی ’’اخلاص‘‘ ہے۔مختصر یہ کہ اخلاص ہو گا تو منزل کی جانب بڑھنے کا عمل قابل قبول ہے ورنہ نہیں۔ قائد کی دو انتہائی اعلیٰ ترین خوبیاں قائد میں مزید دو خوبیاں ہوتی ہیں جو اُس کی شخصیت کو درجہء کمال تک پہنچتاتی ہیں ان میں سے ایک تو یہ کہ تمام لوگ اپنے قائد سے خوف کھاتے ہوں۔ اور دوسری یہ کہ سب لوگ اس سے محبت بھی رکھتے ہوں۔ 1۔ تمام لوگ اپنے قائد سے خوف کھاتے ہوں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ قائد خوفناک قسم کی بلا ہو یا اُس کا چہرہ خوفناک ہو تاکہ لوگ اُس سے خوف کھائیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی قسم کی کوتاہی، لاپرواہی اور بری بات پر ہر شخص کو اپنے قائد کا خوف ہو کہ وہ کسی بھی صورت معاف نہیں کرے گا۔ اور یہ چیز صرف اسی صورت ممکن ہو سکتی ہے کہ قائد بذاتِ خود اللہ تعالیٰ کی متعین کردہ حدود کے اندر رہ کر عمل کرنے والا ہو اور لوگوں سے بھی عمل کروانے والا ہو۔ جب کبھی کسی کا کوئی بھی عمل اللہ کی حدود سے تجاوز کرے اور شریعت نے اُس حد پر سزا مقرر کر
Flag Counter