Maktaba Wahhabi

67 - 234
اسٹاف﴾ کو کسی طرح حق نہیں پہنچتا کہ وہ مال کو اپنی خواہشات کے مطابق تقسیم کریں۔ جس طرح کہ مال کے مالک اپنا مال تقسیم کر لیتے ہیں اور جس طرح چاہتے ہیں لیتے دیتے ہیں، کیونکہ والیان مال اس مال کے مالک نہیں ہیں بلکہ امین﴿امانت دار﴾، نائب ِ﴿سلطان﴾ اور وکیل ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اِنِّیْ وَااللّٰه لَا اُعْطِیْ اَحَدًا وَّ لَا اَمْنَعُ اَحَدًا اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ اَضَعُ حَیْثُ اُمِرْتُ اللہ کی قسم! میں نہ کسی کو دیتا ہوں، نہ کسی سے مال کو روکتا ہوں، میں تو حقداروں پر اسی طرح تقسیم کرتا ہوں جیسا کہ مجھے حکم کیا گیا ہے۔ (رواہ البخاری) ۔ غور کیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رب العالمین کے رسول اور پیغمبر ہیں، لیکن فرماتے ہیں: دینے اور نہ دینے میں اپنے ارادہ کو کوئی دخل نہیں، اور تقسیم کرنے میں کسی قسم کا اختیار نہیں، جس طرح کہ مال کے مالکوں کو حق اور اختیار ہوا کرتا ہے،﴿یعنی وہ﴾ ہر طرح اس میں تصرف کرسکتے ہیں۔ اور سلاطین شاہانِ دنیا بغیر کسی حق اور بغیر اِستحقاق کے جس سے محبت کرتے ہیں اُنہیں دیتے ہیں، اور جس سے ناراض ہوتے ہیں اُسے محروم کر دیتے ہیں{جیسا کہ آجکل پاک سرزمین میں بھی ہو رہا ہے﴾، لیکن اللہ کے پیغمبر ا، اللہ کے بندے ہیں، اور جہاں اللہ کا حکم ہوتا ہے وہاں خرچ کرتے ہیں۔ اسی طرح سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بھی کیا کرتے تھے۔ کسی نے سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے کہا: اگر آپ کچھ اپنے لیے وسعت کر لیا کریں تو بہتر ہے، اللہ تعالیٰ کے مال میں سے کچھ زیادہ لے لیا کریں تو اچھا ہے۔ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا میری اور ان لوگوں کی مثال تمہیں معلوم نہیں ہے، ان کی مثال ایسی ہے کہ کچھ لوگ سفر کر رہے ہیں، ان لوگوں نے اپنا مال جمع کر کے ایک﴿شخص﴾ کے سپرد کیا کہ یہ مال ہمارے لیے مناسب طریقہ سے خرچ کرنا، تو کیا اس کے لیے جائز ہو گا کہ وہ اپنے لیے اس مال میں سے لے لے اور جس طرح چاہے خرچ کرے؟ ایک مرتبہ خمس میں﴿یعنی مالِ غنیمت کے پانچویں حصے سے﴾ بہت سا مال﴿و دولت﴾ سیدنا عمرص کے پاس آیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مال دیکھ کر بولے اُنھوں نے امانتیں دے دیں خوب کیا، بعض حاضرین بولے آپ امانت کو اللہ کے حکم کے مطابق خرچ کرتے ہیں تو لوگو ں نے امانتیں آپ کو دے
Flag Counter