Maktaba Wahhabi

212 - 234
دیا، جس میں اکثر لوگ مبتلا تھے۔ جب کبھی اور جس وقت کوئی مصلح اصلاح کے لیے اقدام کرتا تو یہی اصول اور یہی عدل و انصاف لے کر اقدام کرتا۔ قرآن مجید نے فیصلہ کر دیا: وَاِنْ طَآئِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْ بَیْنَھُمَا فَاِنْ بَغَتْ اِحْدٰھُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِٓئَ اِلٰی اَمْرِ اللّٰه فَاِنْ فَآئَ تْ فَاصْلِحُوْا بَیْنَھَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا اِنَّ اللّٰه یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ(الحجرات:10۔9) اور اگر مسلمانوں کے دو فرقے آپ میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو۔ پھر اگر ان میں سے ایک فرقہ دوسرے پر زیادتی کرے تو جو زیادتی کرتا ہے اس سے لڑو، یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع کرے، پھر جب رجوع کرے تو فریقین میں برابری کے ساتھ صلح کرا دو۔ اور انصاف کو ملحوظ رکھو۔ بیشک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ مسلمان تو بس آپس میں بھائی بھائی ہیں، تو اپنے بھائیوں میں میل جول کرا دیا کرو۔ اور اس بارے میں اولیٰ و افضل یہ ہے کہ پہلے اولیاء مقتول سے معافی کی درخواست کی جائے کیونکہ قرآن مجید میں ہے: وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِہٖ فَھُوَ کَفَّارَۃٌ لَّہٗ(مائدہ:45) اور زخموں کا بدلہ ویسے ہی زخم ہیں۔ پھر جو مظلوم بدلہ معاف کر دے، وہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہو گا۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: مَا رُفِعَ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰه ﷺاَمْرًا فِیْہِ الْقِصَاصُ اِلَّا اَمَرَ فِیْہِ بِالْعَفْوِ(رواہ ابودوٗد وغیرہ) جب کوئی معاملہ پیش اتا جس میں آپ کو قصاص کا حکم فرمانا ہوتا لیکن آپ معاف کرنے کا حکم فرماتے۔ اور صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: مَا نَقَصَتْ صَدَقَۃٌ مِّنْ مَّالٍ وَمَا زَادَ اللّٰه عَبْدًا بِعَفْوٍ اِلَّا عِزًّا وَمَا تَوَاضَعَ اَحَدٌ ِاللّٰه
Flag Counter