Maktaba Wahhabi

207 - 234
اور صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اَوَّلُ مَا یُقْضٰی بَیْنَ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فِی الدِّمَائِ(بخاری و مسلم) قیامت کے دن سب سے پہلے جس کا فیصلہ ہو گا وہ ناحق خون کا ہو گا۔ قتل و خون تین قسم کا ہے: ایک قتل عمداً ہے جس میں خطا اور شبہ خطاء کا احتمال ہی نہیں ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی کو بے گناہ قتل کر دیا۔ جیسا کہ عام طور پر قتل ہوا کرتا ہے۔ مثلاً تلوار سے کسی کو مار دینا، یا خنجر اور چھری سے، یا ہتھوڑے یا پھاوڑے، کدال یا کلہاڑی، تیر وغیرہ سے یا گولی مار کر قتل دینا، یا جلا کر مار دینا، یا غرق کر دینا، یا منہ بند کر کے مار دینا، یا زہر کھلا کر مار دینا، وغیرہ وغیرہ۔ تو اس قتل میں حدجاری ہو گی۔ اور مقتول کے اولیاء اور ورثاء کو حق ہو گا کہ چاہیں تو اُسے قتل کریں، چاہیں معاف کر دیں۔ اور اگر چاہیں دیت و خون بہا لے کر چھوڑ دیں۔ مقتول کے اولیاء و ورثاء کو جائز نہیں ہے کہ قاتل کے سوا کسی دوسرے کو قتل کر دیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰه اِلَّا بِالْحَقِّ وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہٖ سُلْطَانًا فَلَا یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِ اِنَّہٗ کَانَ مَنْصُوْرًا (بنی اسرائیل:33) اور کسی کی جان کو جس کا مارنا اللہ نے حرام کر دیا ہے، ناحق قتل نہ کرو، اور جو شخص مظلوم مارا جائے تو ہم نے اُس کے والی کو اختیار دیا ہے تو اس کو چاہیے کہ خون میں زیادتی نہ کرے کیونکہ قصاص لینے میں اس کو حق حاصل ہے۔ اس آیت کی تفسیر یہی کی گئی ہے کہ قاتل کے سوا کسی دوسرے شخص کو قتل نہ کیا جائے۔ اور سیدنا ابی شریح الخزاعی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ اُصِیْبَ بِدَمٍ اَوْ خَبْلٍ فَھُوَ بِا لْخِیَارِ بَیْنَ اِحْدٰی ثَلَاثٍ فَاِنْ اَرَادَ الرَّابِعَۃَ فَخُذُوْا عَلٰی یَدَیْہِ اَنْ یَّقْتُلَ اَوْ یَعْفُوْ اَوْ یَاْخُذَ الدِّیَۃَ فَمَنْ فَعَلَ شَیْئًا مِّنْ ذَالِکَ فَعَادٍ فَاِنَّ لَہٗ جَھَنَّمَ خَالِدًا مّخَلَّدًا فِیْھَا اَبَدًا(رواہ اہل سنن) جو خون ہو جائے یا خطرناک حالت میں پایا جائے اور پھر مر جائے تو تین راستے ہیں جو چوتھا راستہ اختیار کرے اُسے روکو۔ ایک یہ کہ قاتل کو قتل کر دے، دوسرا یہ کہ اُسے معاف کر دے،
Flag Counter