Maktaba Wahhabi

109 - 234
جس کی شفاعت و سفارش حدود اللہ میں سے کسی حد کے آڑ ے آئی تو وہ اللہ کا مقابلہ کرتا ہے اور جو شخص باطل پر جھگڑتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ باطل ہے تو وہ اللہ کی خفگی میں رہے گا۔ یہانتک کہ وہ اس جھگڑے کو چھوڑ دے، اور جس نے کسی مسلمان کے خلاف ایسی بات کہی جو اس میں نہیں ہے، تو ایسے لوگ ردغۃ الخبال میں قید ہوں گے، صحابہ ث نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ردغۃ الخبال کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل دوزخ کا نچوڑا ہوا خون اور پیپ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکام، گواہوں اور جھگڑنے والوں کا ذکر اسی لیے فرمایا ہے کہ یہی لوگ حکم﴿یعنی فیصلے﴾ کے اصل ارکان ہیں اور فیصلہ انہی کی منصفی(یعنی بیانات) پر ہو تا ہے۔ اور صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، سفارش و شفاعت کے بارے میں مہتم بالشان واقعہ اس عور ت کا ہے جو بنی مخزوم میں سے تھی۔ جس نے چوری کی تھی۔ کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، گفتگو کرنا چاہی تو لوگوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کون کرے گا؟ گفتگو کی جرأت وہمت سوائے اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے کوئی نہیں کر سکتا، چنانچہ سیدنا اُسامہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں پیش کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أَتَشْفَعُ فِیْ حَدٍّ مِنْ حُدُوْدِ اللّٰه ؟ اِنَّمَا ھَلَکَ بَنُوْا اِسْرَائِیْلَ لِاَنَّھُمْ کَانُوْا اِذَا سَرَقَ فِیْھِمُ الشَّرِیْفُ تَرَکُوْہُ وَ اِذَا سَرَقَ فِیْھِمُ الضَّعِیْفُ اَقَامُوْا عَلَیْہِ الْحَدَّ وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ لَوْ اَنَّ فَا طِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ یَدَھَا کیا حدود الٰہی میں شفاعت و سفارش کر رہے ہو؟ بنی اسرائیل اسی لیے ہلاک ہوئے ہیں کہ جب ان میں کوئی ’’شریف آدی‘‘(یعنی سیاستدان، بیوروکریٹ، چوھدری،وڈیرا، فوجی افسر، پولیس افسر، وزیر، مشیر، بزنس مین وغیرہ) چوری کرتا تو اُسے چھوڑ دیتے، جب کوئی ضعیف کمزور آدمی چوری کرتا تو اُس پر حد جاری کرتے، قسم اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ چو ری کرتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔ یہ واقعہ بڑا عبرت انگیز، نصیحت آموز ہے کیونکہ قریش میں اشرف﴿افضل﴾ ترین خاندان دو
Flag Counter