Maktaba Wahhabi

108 - 234
اس امارت سے حدود اللہ کا اجراء ہوتا ہے، راستوں میں امن ملتاہے، دشمنوں سے اس کے ذریعہ جہاد کیا جاتا ہے، اور اس کے ذریعہ مال فئے تقسیم ہوا کرتا ہے۔ یہ وہ قسم ہے کہ والیانِ ملک﴿حاکمِ وقت﴾، امراء ولایت﴿قاضی و جج﴾ پر اس سے بحث کرنا، اس پر غور کرنا فرض ہے اور بلا کسی دعویدار کے دعویٰ اور مطالبہ کے﴿یعنی حاکم اور کورٹ کو از خود نوٹس لیتے ہوئے﴾ یہ حدود قائم کرنی چاہئیں۔ اور یہی حکم شہادت(گواہی) کا ہے، بغیر کسی کے دعوی کے لینی چاہیئے۔ اگر چہ فقہاء نے چور کے ہاتھ کاٹنے میں اختلاف کیا ہے کہ جو مال چوری ہو گیا، کیا اس کے مطالبہ کی ضرورت ہے کہ جس کا چوری ہوا ہے وہ اپنا ما ل طلب کر ے تو چور پر حد جاری ہوگی وگر نہ نہیں۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہ کہتے ہیں کہ مطالبہ کے بغیر حد جاری نہیں کی جائے گی، لیکن سب فقہاء اس پر متفق ہیں کہ جس کی چوری ہوئی ہے،﴿چور پر﴾ حد جاری کرنے کے لیے اس کے مطالبے کی ضرورت نہیں ہے۔ بعض علماء مال کے مطالبہ کی شرط لگاتے ہیں تاکہ چور کو کسی قسم کا شبہ نہ رہے۔ یہ جرائم کی وہ قسم ہے کہ جس میں حدود جاری کرنا واجب﴿یعنی فرض﴾ ہے، شریف ہو یا کمین، اونچے خاندان اور بڑی برادری والا ہو یا نہیں۔ طاقتور ہو، یا ضعیف، سب پر حد جاری کرنا فرض ہے۔ جو﴿حاکم، جج یا قاضی﴾ کسی کی شفاعت و سفارش سے، یا ہدیہ اور تحفہ لے کر، یا کسی دوسری وجہ سے حد کو معطل اور ساقط کرے گا تو اُس پر اللہ اور اس کے رسول، اور فرشتوں اور لوگوں کی لعنت ہو گی۔ اس میں کسی کی سفارش مقبول نہیں ہو گی۔ اور سفارش کرنے والا اس قبیل سے ہو گا۔ مَنِ اشْتَرٰی بِٰایٰاتِ اللّٰه ثَمَنًا قَلِیْلًا۔(اللہ کی آیتوں کو تھوڑے داموں بیچتا ہے )۔ اور امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَنْ حَالَتْ شَفَاعَتُہٗ دُوْنَ حَدٍّ مِنْ حُدُوْدِ اللّٰه فَقَدْ ضَادَّ اللّٰه فِیْ اَمْرِہِ وَمَنْ خَاصَمَ فِیْ بَاطِلٍ وَھُوَ یَعْلَمُ لَمْ یَزَلْ فِیْ سَخَطِ اللّٰه حَتّٰی یَنْزِعَ وَمَنْ قَالَ فِیْ مُسْلِمٍ مَا لَیْسَ فِیْہِ حُبِسَ فِیْ رَدْغَۃِ الْخِبَالِ حَتّٰی یَخْرُجَ مِمَّا قَالَ قِیْلَ یَارَسُوْلَ اللّٰه وَمَا رَدْغَۃُ الْخِبَالِ؟ قَالَ عُصَارَۃُ اَھْلِ النَّارِ(رواہ ابوداؤد)
Flag Counter