سلف کو علمی منہج سے تہی دامن ثابت کر نے کی کوشش دو قسم کے مفروضوں پر قائم ہے۔حالانکہ سلف کا منہج تو وہ منہج ہے کہ تفرقہ و اختلاف کے وقت نصوص کو ان کی فہم کے مطابق سمجھنے کا حکم ہے اور یہ منہج ہی اختلاف و تفرقہ سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔یہ دونوں مفروضے ایسے ہیں کہ جن کی کوئی بنیاد نہیں ہے اگر چہ اہل کلام نے ان پر اتفاق کیا ہے اور انہیں تسلسل کے ساتھ نقل کیا ہے۔وہ مفروضے یہ ہے۔ ۱۔ان کا کہنا ہے کہ سلف کا مذہب تسلیم کرنے کے زیادہ لائق ہے،مگر خلف کا مذہب زیادہ علمی اور عقلی مضبوط ہے۔مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر یہ قول گمراہ کن اور بے وقعت ہے: 1۔ خلف نے سلامت،علم اور حکمت میں فرق کیا ہے،کیا علم اور حکمت(فلسفہ)اس سلامتی(عیوب سے پاکی)کی بنیاد ہے جو علم کے رکاب میں چل رہی ہو اور اپنا دامن حکمت کے پیچھے گھسیٹ رہا ہو؟ سبب اور اس کے نتیجہ میں تفریق کو عقل کس طرح جائز قرار دیتی ہے؟ یہ تو ناممکن چیز ہے۔ 2۔ بعد میں آنے والے(خلف)خیر الناس(صحابہ و تابعین)سے کس طرح زیادہ علم والے بن گئے؟ کیا بہتر انسان ہونے کے لئے صرف علم و حکمت کافی ہے؟ 3۔ کسی مذہب کا یہ کیسا علم اور کیس حکمت ہے کہ اس مذہب کے سرکردہ لوگوں نے اس سے بیزاری کا اعلان کیا ہو اور اس مذہب کے بڑے اور اہم لوگوں نے اس کو غلط اور بے فائدہ قرار دیا ہو،اور اس بات کا اقرار کیا ہو کہ ہم خود اس علم کے بارے میں حیران ہیں اور جو کچھ انہوں نے اس علم کے لئے کیا ہے اور جو کچھ اس علم کی وجہ سے انہوں نے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سلف امت کے بارے میں کہا ہے یا کیا ہے اس پر شرمندہ ہیں۔اس پر شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے سیر |