Maktaba Wahhabi

42 - 198
بلال رضی اللہ عنہ ، عامر بن فہیدہ رضی اللہ عنہ، ام عبیس رضی اللہ عنہا ، زنیرہ رضی اللہ عنہا ، عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اور ان کے والدین وغیرہم۔ ان لوگوں کو مار مار کر ادھ موا کر دیا جاتا، بھوکا پیاسا بند رکھا جاتا، مکہ کی تپتی ریت پر، چلچلاتی دھوپ میں لٹا دیا جاتا اور سینے پر بھاری پتھر رکھ کر گھنٹوں تڑپایا جاتا، جو لوگ پیشہ ور تھے۔ ان سے کام لیا جاتا اور اجرت ادا کرنے میں پریشان کیا جاتا۔ چنانچہ صحیحین میں حضرت خباب رضی اللہ عنہ بن ارت کی یہ روایت موجود ہے کہ: ’میں مکے میں لوہار کا کام کرتا تھا۔ مجھ سے عاص بن وائل نے کام لیا، پھر جب میں اس سے اجرت لینے گیا تو اس نے کہا کہ میں تیری اجرت نہ دوں گا جب تک تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار نہ کرے۔‘‘ اسی طرح جو لوگ تجارت کرتے تھے ان کے کاروبار کو برباد کرنے کی کوششیں کی جاتیں اور جو معاشرے میں کچھ عزت کا مقام رکھتے تھے انہیں ہر طریقہ سے ذلیل و رسوا کیا جاتا۔ اسی زمانے کا حال بیان کرتے تھے۔ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کعبے کے سائے میں تشریف فرما تھے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا ’ یا رسول اللہ اب تو ظلم کی حد ہو گئی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدا سے دعا نہیں فرماتے یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ تمتما اُٹھا اور آپ نے فرمایا:’’تم سے پہلے جو اہلِ ایمان تھے ان پر اس سے زیادہ مظالم ہو چکے ہیں۔ ان کی ہڈیوں پر لوہے کی کنگھیاں گھسی جاتی تھیں۔ ان کے سروں پر رکھ کر آرے چلائے جاتے تھے، پھر بھی وہ اپنے دین سے نہ پھرتے تھے۔ یقین جانو کہ اللہ اس کام کو پورا کر کے رہے گا۔ یہاں تک کہ وہ وقت آئے گا کہ ایک آدمی صنعا سے حضرت موت تک بے کھٹکے سفر کرے گا اور اللہ کے سوا اس کو کسی کا خوف نہ ہو گا۔ مگر تم لوگ جلد بازی کرتے ہو۔‘‘ (بخاری) یہ حالات جب ناقابلِ برداشت حد کو پہنچ گئے تو (رجب ۴۵ عام الفیل ۵ نبوی) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ: ’’اچھا ہو کہ تم لوگ نکل کر حبش چلے جاؤ۔ وہاں ایک ایسا بادشاہ ہے جس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا اور وہ بھلائی کی سرزمین ہے۔ جب تک اللہ تمہاری اس مصیبت کو رفع کرنے کی کوئی صورت پیدا کرے تو لوگ وہاں ٹھہرے رہو۔‘‘ اس ارشاد کی بنا پر پہلے گیارہ مردوں اور چار خواتین نے حبش کی راہ لی۔ قریش کے لوگوں نے ساحل تک ان کا پیچھا کیا مگر خوش قسمتی سے شعیبیہ کی بندرگاہ پر ان کو بروقت کشتی مل گئی اور وہ گرفتار ہونے سے بچ گئے۔ پھر چند مہینوں کے اندر مزید لوگوں نے ہجرت کی۔ یہاں تک کہ ۸۳ مرد، گیارہ عورتیں اور غیر قریشی مسلمان حبش میں جمع ہو گئے اور مکے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف ۴۰ آدمی رہ گئے۔ ردِ عمل: اس ہجرت سے مکے کے گھر گھر میں کہرام مچ گیا۔ کیونکہ قریش کے بڑے اور چھوٹے خاندانوں
Flag Counter