جب ان کے اعمال کے پیشِ نظر وحیٔ الٰہی نے کہا: وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِه اِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلٰي شَفَا حُفْرَةٍ مِّنْ النَّارِ فَانْقَذَكُمْ مِّنْھَاط (۱۰۳:۳) ’’الله نے تمہیں جو نعت عطا فرمائی ہے اس کی یاد سے غافل نہ ہو، تمہارا حال یہ تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہو رہے تھے لیکن اس کے فضل و کرم سے ایسا ہوا کہ بھائی بھائی بن گئے۔ (دشمنی کی وجہ سے) تمہارا حال یہ تھا کہ آگ سے بھری ہوئی خندق ہے اور اس کے کنارے کھڑے ہوں ذرا پاؤں پھسلا اور شعلوں میں جا گرے) لیکن اللہ نے تمہیں ان حالات سے نکال لیا۔‘‘ قرآن ، تاریخ یا قصہ کی کتاب نہیں، وہ واقعہ بیان کرتا ہے مگر اشارۃً۔ اس لئے بھی کہ عرب کا ہر فرد تاریخِ عرب کی ایک مجلّد کتاب تھا۔ ذرا سا اشارہ انہیں حالات و معاملات معلوم کرانے کے لئے کافی تھا۔ جنہیں فہمِ قرآن بخشا گیا ہے ان کے لئے بھی اتنا اشارہ عرب کی پوری تاریخ پیش کر دیتا ہے۔ عرب کا عظیم الشّان انقلاب: لیکن بعثتِ محمد رسول اللہ و نزولِ قرآن کے بعد انہی اہل عرب کا کیا حال تھا؟ قلب بدل گئے تھے، ماہیت بدل گئی تھی ذہنیت بدل گئی تھی، یکسر انقلاب ہو گیا تھا۔ یکسر انسان بن گئے تھے اور اس تبدیلی و انقلاب کے بارے میں اکابرِ عرب کے اقوال مختلف تاریخی کتابوں میں آج بھی محفوظ ہیں، دیکھے جاتے ہیں اور دیکھے جا سکتے ہیں، غصب و قزاقی کے خوگر عرب انقلاب کے بعد ایسے انسان و نمونہ‘ انسانیت بن گئے تھے کہ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں، غلاموں اور غلام زادوں کے نام اپنے ترکے کی وصیت کرتے تھے، یا اپنی اولاد کے ساتھ ساتھ انہیں بھی ترکے میں حصہ دیتے تھے۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ، ان کی شرافت ونجابت میں کس کو کلام ہو سکتا ہے، اشرافِ عرب، اصیل قریش، نسلی غرور کر سکتے تھے، ایک منٹ کے لئے بھی یہ خیال ہیں ہو سکتا کہ یہ کس کی رکاب پکڑ کر چلنے والے لوگ ہیں مگر یہ تاریخ کی ایک دہرائی ہوئی حقیقت ہے اور تہذیبِ جدید بھی جس سے انکار نہ کر سکی کہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ [1] |