تو اللہ نے اسے اسی عمل کے بدلے جنت میں داخل کر دیا۔ (بخاری و مسلم) مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں۔ ’’میں اس سے زیادہ معاف کرنے کا سزاوار ہوں۔ اس لئے میرے بندے سے درگزر کرو۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی اسوہ: سعید بن قیس کا بیان ہے کہ میں نے اور مخرمہ عبدی نے ہجر سے کچھ کپڑا خریدا اور مکہ میں فروخت کرنے لگے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس سے گزرے ہم سے کچھ پاجاموں کا سودا کیا۔ وہاں قریب ہی ایک شخص مزدوری پر کچھ تول رہا تھا۔ آپ نے اسے مخاطب کر کے فرمایا زِنْ وارْجح تولو مگر دیکھو جھکتا تولنا۔ (راوی کا بیان ہے کہ اس سے پہلے ہم نے ایسا عمدہ کلام نہیں سنا تھا) حضرت جابر بیان کرتے ہیں، میرا کچھ قرض حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے واجب الادا تھا۔ آپ نے مجھے قرض بھی ادا کیا اور کچھ مال مزید بھی۔ (بطور شکریہ و امتنان) مرحمت فرمایا۔ (ابو داؤد) عبد اللہ بن ابی ربیعہ سے مروی ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے چالیس درہم قرض لیے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مال آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے قرض ادا کر دیا اور دعا فرمائی اللہ تعالیٰ تیرے اہل و عیال اور مال و منال میں برکت دے قرض کا عوض شکریہ کے ساتھ ادائیگی ہے۔ (نسائی) ایک شخص نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے قرض کا تقاضا کرتے ہوئے کچھ درشت کلامی کی۔ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بڑی ناگوار گزری۔ مگر آپ نے فرمایا اسے کچھ نہ کہو۔ صاحبِ مال کو بولنے کا حق ہے۔ اسے ایک اونٹ خرید کر دے دو۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ اس نے آپ کو جو اونٹ دیا تھا ہمیں ویسا مل نہیں رہا البتہ اس سے عمدہ مل سکتا ہے۔ فرمایا وہی خرید کر دے دو تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو ادائیگی میں اچھا ہے۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک غلام حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک پر ہجرت کی بیعت کی۔ (آپ کو اس کے غلام ہونے کا علم نہ تھا) بعد میں اس کا آقا آیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے غلام کا مطالبہ کرنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خرید لینے کی خواہش ظاہر کی۔ وہ بمشکل دو حبشی غلاموں کے بدلے اسے فروخت کرنے پر آمادہ ہوا۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دو غلاموں کے بدلے میں خرید لیا۔ اور آئندہ کے لئے جب بھی کسی سے بیعت لیتے تو اس سے پوچھ لیتے آیا آزاد ہے یا غلام۔ مدینہ میں ایک تجارتی قافلہ وارد ہوا۔ اور شہر سے باہر ٹھہرا۔ اتفاقاً حضرت اُدھر سے گزرے۔ آپ نے ایک اونٹ کا سودا کر لیا اور یہ کہہ کر اونٹ لے آئے کہ ابھی قیمت بھجوائے دیتا ہوں۔ بعد میں قافلے والوں کو تشویش ہوئی کہ بغیر کسی تعارف کے معاملہ کر بیٹھے۔ اس پر سردارِ قافلہ کی خاتون بولی۔ ’’مطمئن رہو میں نے اس شخص کا چہرہ دیکھا تھا۔ جو چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن تھا۔ اس جیسا شخص کبھی تمہارے ساتھ بد معاملگی نہ کرے گا اگر بالفرض وہ رقم ادا نہ کرے تو مطمئن رہو میں اپنے پاس سے رقم ادا کر دوں گی۔‘‘ یہ واقعہ طارق بن عبد اللہ بن بیان کیا جو خود شریک قافلہ تھے۔ بعد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے طے شدہ اور قیمت سے زیادہ مقدار میں کھجوریں بھجوا دیں۔ |