سارے دھوکے مغالطے نکل جائیں گے۔ اس عقیدے کو واضح کرنے میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے طرزِ عمل کا ایک واقعہ کافی ہے۔ ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ آپ نے اپنے حجرہ کے دروازہ کے قریب لوگوں کو جھگڑتے سنا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے آئے اور فرمایا۔ إنَّما أَنَا بَشَرٌ، وإنَّه يَأْتِينِي الخَصْمُ، فَلَعَلَّ بَعْضَهُمْ أَلْحَنُ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ ، فأحْسِبُ أنَّهُ صَادِقٌ، فأقْضِي له، فمَن قَضَيْتُ له بحَقِّ مُسْلِمٍ، فإنَّما هي قِطْعَةٌ مِنَ النَّارِ، فَلْيَحْمِلْهَا، أَوْ يَذَرْهَا. میرے پاس مقدمہ آتا ہے۔ مدعی اپنی چرب زبانی سے دعویٰ ثابت کر دیتا ہے حالانکہ حق دوسری جانب ہوتا ہے، میں اس بیان کے مطابق اس کے حق میں فیصلہ نافذ کرتا ہوں۔ مگر وہ یہ سمجھ لے کہ ایک مسلمان کا مال ناجائز طریقہ سے لینا آگ کو لینا ہے۔ اب وہ آزاد ہے اسے قبول کرے یا چھوڑ دے۔ روزِ جزاء کی جواب دہی کا ذمہ دارانہ تصوّر اس سے زیادہ کیا دلایا جا سکتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کے فیصلے کے سامنے اپنے فیصلے کو بھی بے حقیقت قرار دے دیا۔ یہ واقعہ ایک طرف آپ کی بے نفسی کی انتہا ہے اور دوسری طرف قانون الٰہی کی پابندی کا وہ ہمہ گیر اثر پیدا کرتا ہے جس سے زیادہ اثر پیدا کرنا ممکن نہیں۔ قرآن مجید کے الفاظ میں سنیئے: ما کنت بدعا من الرسل وما ادری ما یفعل بی ولا بکم میں انوکھا رسول نہیں ہوں میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا ہو گا اور تمہارے ساتھ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرزِ عمل نے اسلام قبول کرنے والوں کے ضمیر کو اس حد تک بیدار کر دیا اور آخرت کے عقیدے نے یہ بیداری اس مقام تک پہنچا دی کہ لوگ قانون کی پابندی ہی میں دنیوی اور اُخروی راحت یقین کرنے لگے۔ ہر مرد و عورت نے اس پابندی ہی کو ذریعۂ نجات یقین کر لیا۔ اور یہ یقین معاشری اور معاشی زندگی کے اطمینان اور امن کا مستقل سرمایہ بن گیا۔ اس سلسلہ میں ذیل کے دو واقعات بطور شہادت کافی ہوں گے۔ بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا۔ ماعز بن مالک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے پاک کر دیجئے؟ آپ نے فرمایا: ’’تیرا برا ہو لوٹ جا اور اللہ کے حضور توبہ و استغفار کر لے!‘‘ راوی کہتا ہے وہ تھوڑی دور تک واپس گئے پھر لوٹ آئے اور پھر یہی کہا کہ ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے پاک کر دیجئے! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی جواب دیا۔ تین بار |