Maktaba Wahhabi

173 - 198
عنایت اللہ وارثی رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ایک مقنّن کی حیثیت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بیان کرتے وقت آج کل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مختلف حیثیتوں میں علیحدہ علیحدہ پیش کرنے کا رواج ہے۔ ان میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ’قانون ساز‘ ہونے کی حیثیت اہم ترین ہے۔ ایک تو اس وجہ سے کہ ریاست و سیاست کے تین شعبوں مقنّنہ، عدلیہ اور انتظامیہ میں بنیادی اہمیت مقنہ کو حاصل ہے کیونکہ انتظامی اصلاحات اور عدالتی انصاف کا پہلا مرحلہ متوازن قانون سازی ہی ہے۔ دوسرا اس وجہ سے کہ یہ مسئلہ شروع ہی سے معرکۃ الآراء بنا ہوا ہے کہ خود سنت کو قرآن سے کیا تعلق حاصل ہے۔ اس مسئلہ کی تفصیلات جس قدر نازک ہیں اسی قدر موجودہ دور میں ان کے بارے میں ذہنوں کی صفائی کی ضرورت ہے تاکہ بدلے ہوئے حالات میں بھی شریعت کو اس کے مالک کی مرضی کے مطابق اپنایا یا نافذ کیا جا سکے۔ یہ بھی واضح رہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حیثیت اہم ترین ہونے کے ساتھ ساتھ جامع ترین بھی ہے کیونکہ اسلام انسانی زندگی کو ایک وحدت قرار دے کر اس کا مکمل ضابطۂ حیات ٹھہرتا ہے لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قانون سازی بھی اس مکمل وحدت کے لئے ہے۔ اس موضوع کے متذکرۃ الصدر دو پہلوؤں میں سے پہلے کے بعض گوشے ذیل میں اجاگر کئے گئے ہیں جبکہ دوسرے پر کچھ بحث رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نمبر (حصہ اول) میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ (ادارہ) آنچہ مے گوئی کہ آں بہترز حسن یار من ایں دارد و آں نیزھم قانون کی اصل غرض و غایت معاشرے میں امن و امان کا قیام اور ہر شخص کے ہر جائز حق کی حفظ و نگداشت پہلے حصہ کا زیادہ تعلق ضابطہ فوجداری سے اور دوسرے کا دیوانی سے۔ اسے عدلیہ اور انتظامیہ کے دو شعبوں پر بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ہر وہ قانون جو اس غرض کو پورا کرے گا اور جس قدر زیادہ اچھی صورت میں پورا کرے گا اسی قدر وہ قانون قابلِ اعتماد، زیادہ قابلِ تعریف، زیادہ مقبول اور زیادہ مفید ہو گا۔ اور
Flag Counter