ہمارے اس تعلق کو منقطع کرانے کے لئے مشرق و مغرب میں ہمہ تن مصروف ہیں کبھی وہ مسلمانوں کو پھاڑنے کے لئے نبیٔ نبوّت کا فتنہ کھڑا کر کے اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور کبھی سوشلزم اور کمیونزم کا سرخ جال بچھاتے ہیں۔ کبھی منکرینِ حدیث اور اہلِ قرآن کی شکل میں مسند آرا ہوتے ہیں اور کبھی مسلمانوں کی سلطنتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے مٹا دینے کے منصوبے بنا رہے ہوتے ہیں۔۔۔ کیونکہ تمام باطل قوتیں ملّتِ واحدہ ہیں اور انہیں شدید خطرہ ہے کہ اگر مسلما دین اسلام پر استقلال و استقامات سے جم گئے تو ہماری جڑیں تک کھود ڈالیں گے۔ اور قابلِ افسوس تو یہ بات ہے کہ نادان مسلمان کفار کی سازشوں کو سمجھنے کی بجائے ان کا شکار ہو رہا ہے جسے ڈاکٹر اقبال نے یوں بیان کیا ہے ؎ چاک کر دی ترکِ ناداں نے خلافت کی قبا سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیّاری بھی دیکھ اور نبیٔ نبوت کی یوں نقاب کشائی کی: محکوم کے الہام سے اللہ بجائے غارتِ گرِ اقوام ہے یہ صورتِ چنگیز اور مغربی تہذیب کے دلدادہ مسلمانوں کو یہ حقیقت سمجھائی کہ ؎ کی ترقی جو مسلماں نے فرنگی ہو کر یہ فرنگی کی ترقی ہے مسلماں کی نہیں اور اسلام کے ساتھ سوشلزم کا پیوند لگانے والے منافقانہ رویہ رکھنے والوں کو یوں نصیحت کی: باطل دوئی پسند ہے حق لا شرک ہے شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول یہ حقیقت ہے کہ جس کی محبت دل میں گھر کر جائے اس کی یاد دل میں مستقل طور پر جاگزیں ہو جاتی ہے۔ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعویٰ ہو اور پھر ان کا اسوۂِ حسنہ نظر انداز کر دیا جاے۔یہ دونوں متضاد چیزیں ہیں۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر حکم اور ہر فعل زندگی کا جزو بننا لازمی ہے۔ جتنی محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کم ہو گی اتنا ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر عمل کرنا دشوار ہو گا۔ اذان کی آواز سن کر مسجد میں نہ جانا، رزقِ حلال کی بجائے حرام کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا، رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح ہدایت کے باوجود شراب اور زنا کاری میں مبتلا ہو کر دین و دنیا برباد کرنا۔ مسلمان عورتوں کا شریعت کی حدود توڑ کر غیروں کی نظر میں محبوب ہونے کے لئے نیم عریاں ہونے سے گریز نہ کرنا۔سودی کاروباور اور جھوٹ و فریب کو ہشیاری سمجھنا، سبھی کچھ |