Maktaba Wahhabi

162 - 198
کے دعویدار اور اسلام کو اپنا اوڑھنا بچھونا ثابت کرنے پر اصرار کرنے والے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دنیا کی محبت اور مال و دولت کی حرص سے دامن بچانے کا حکم دیا اور ہمارا حال یہ ہے کہ بعض حالات میں ہم نے حبِّ رسول کے دعویٰ تک کو دنیا حاصل کرنے کا ذریعہ بنا رکھا ہے! انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تک قرآن مجید کا یہ روشن اور واضح حکم پہنچایا۔ کہ اللہ کی رسی کو مل کر مضبوطی سے تھامے رکھنا اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالنا۔لیکن ہم موت اور تباہی کو اپنے سروں پر مسلط دیکھ کر بھی آپس کی سر پھٹول سے باز نہیں آتے۔ ہم نے دین کی سب سے بڑی خدمت ہی اسی بات کو سمجھ رکھا ہے کہ ایک دوسرے کو بے آبرو کریں اور کافر قرار دے کر اس کے درپئے آزار ہو جائیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کے احکام ہم تک بھی اسی طرح پہنچائے ہیں جس طرح اپنے زمانے کے مسلمانوں کو پہنچائے تھے لیکن ملی طور پر ہمارا حال حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ان اُمتیوں سے بھی بد تر ہے جنہوں نے کہہ دیا تھا۔ جا تُو وا تیرا خدا ہی جہاد کرے۔ ہمیں اپنے اموال یہودیوں سے زیادہ عزیز اور اپنی جانیں زنخوں سے زیادہ پیاری ہیں۔ اللہ کے سچے رسول حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حق شناسی، انصاف نیک چلنی اور ایمانداری کا حکم دیا ہے لیکن ہم نے ہر بے ایمانی اور بدلچنی کو اپنے لئے جائز اور ہر اچھائی کو اپنے اوپر حرام کر لیا ہے۔ ہماری بستیوں میں جوئے خانوں، عصمت فروشی کے اڈوں، نشہ بازوں کے تکیوں اور لہو و لعب میں مبتلا رہنے والوں کی محفلوں کی کس قدر کثرت ہے، اور ہم رشوت جعلسازی کذب و افترا اور دوسرے کبائر پر کس قدر دلیر ہو گئے ہیں! بلا مبالغہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہمارے متقی بھی جب بات کرتے ہیں تو ان کے منہ سے فساد کی بُو اور عناد کی سڑاند آتی ہے۔ ہم نے مقدسِ قرآن اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادث میں معانی و مفہوم سمجھنے کی حد تک اس قدر تحریف کر لی ہے۔ کہ نہ کوئی برائی ہمارے ایمان کے لئے خطرہ بنتی ہے اور نہ کسی آلودگی سے ہمارے تقویٰ کا لباس میلا ہوتا ہے۔ ہم وحشی جانوروں کی طرح ایک دوسرے پر غراتے ہیں اور ڈاکوؤں اور چوروں کی طرح ایک دوسرے کا حق تلف کرتے ہیں۔یہ سب کیوں ہے؟ یقیناً اس لئے کہ ہم نے حُبِّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی مفہوم کو بھلا کر ایک خود ساختہ مفہوم اپنا لیا ہے۔ اپنے اعمال و افعال اور اقوال کو قرآن و حدیث کے مطابق بنانے کی جگہ ہم صرف اپنے زبانی دعووں اور قولی عبادات کو تو حبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نشانی خیال کرتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ہم اوہام کے اس گنبد سے باہر نکل کر قرآن اور حدیث کی روشنی میں حُبِّ رسول کے تقاضوں کو سمجھیں اور نورِ محمدی کی مقدس مشعلیں لے کر انسانی بستیوں کو روشن کر دیں، دوسروں کا کیا ذکر خود ہماری آبادیاں اور ہمارے اپنے بچے اس روشنی کو ترس رہے ہیں۔
Flag Counter