مستی، آپس کا بیر اور ناروا نفرت سب ترک کر دینے کے قابل ہیں۔ رنگ و نسل اور زبان کے اختلاف کے باوجود جو شخص مسلمان ہو جائے وہ تمہارا بھائی ہے اور تمہارے سگے عزیزوں میں سے جو کوئی اس راہ ہدایت کو نہ اپنائے وہ تمہارے لئے غیر ہے تو ان کی بستیاں امن کا گہوارہ اور ان کے قلوب محبت و مروّت کی دنیا بن گئے۔ جب اُن سے کہا گیا، خدا کی زمین پر خدا کی باشاہت قائم کرنے اور مظلوموں کو ظالموں کے ظلم سے نجات دلانے کے تلوار لے کر جہاد کے لئے نکلو! تو وہ اس سج دھج اور جوش و جذبے سے میدانِ وغا کی طرف بڑھ گے۔ کہ نہ مال و دولت اور جائیدادوں کی محبت ان کے پیروں کی زنجیر بن سکی۔ نہ جان کا خطرہ ان کے لئے خطرہ بنا اور نہ طاقتور دشمنوں کا خوف ان پر غالب آسکا۔ وہ جملۂ عروسی میں عروسِ نو کو چھوڑ میدان کارِ زار میں آگئے اور انہوں نے جنت کی باغوں کی ٹھنڈی چھاؤں اور آبِ خنک کے شوق میں دامن کی کھجوریں فرشِ خاک پر پھینک دیں۔ جب ان سے کہا گیا اللہ کے لئے اپنا وطن چھوڑ کر دیارِ غیر کو اپنا وطن بنا لو اور اپنے ان رشتہ داروں سے قطع تعلق کر کے جن کا خون تمہاری رگوں میں گردش کر رہا ہے ان لوگوں کو اپنا بھائی اور عزیز تصوّر کرو جن سے اتحادِ فکر و خیال کے سوا تمہارا کوئی رشتہ نہیں تو دنیا نے دیکھا بلال حبشی سلمان فارسی اور صُہیب رومی رضی اللہ علیہم اجمعین نجیب الطرفین قریشن کی محفلوں میں زانو سے زانو ملا کر بیٹھے ہیں اور ابو لہب اور ابو جہل جیسے قریشی سردار لعنت ے مستحق ٹھہرائے گے۔ یہ سب کچھ کیوں ہوا نہ صرف اس لئے کہ یہ احکام انہوں نے اپنے اس محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زبان سے سنے جسے وہ اپنی جانوں، اپنے اموال اور اپنی آل اولاد سے زیادہ محبوب جانتے تھے۔ خدا کو تو انہوں نے دیکھا ہی نہ تھا۔ اور جب ہزار خوبیوں کی یہ خوبی اور ہزار برکتوں کی یہ برکت ان کی زندگی پر سایہ فگن ہوئی تو بادشاہوں کے تاج ان کے قدموں میں ڈال دیئے گئے اور انہیں پوری زمین کا وارث بنا دیا گیا۔ اس کروفر کے ساتھ کہ تمام انسانی بستیوں کے فیصلے ان کی منشا کے مطابق طے پاتے تھے۔ ان مقدس لوگوں کے مقابلے میں جو ہر لحاظ سے خلافتِ ارضی کے مستحق تھے ہمارا حال کیا ہے؟ کہ یہ نہیں کہ ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم کو ڈھٹائی سے توڑتے ہیں اور قریب قریب ہر معاملے میں بغاوت کا علم بلند کیے ہوئے ہیں۔ اور اس سلسلے میں انتہائی شرمناک صورت یہ ہے کہ عمل کے میدان میں ان حضرات کا حال بھی قوم کے جہلا سے مختلف نہیں جو حُبِّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم |