تو سنتِ خداوندی یہی ہے کہ لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی یعنی انسان کو وہی کچھ حاصل ہوتا ہے جس کے لئے وہ کوشش کرے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ امّت فرض سے روگردانی کرے۔ بد اعمال اور کم حوصلہ ہو۔ نہ اعلائے کلمۃ الحق کرے اور نہ امر بالمعروف کا فریضۃ انجام دے اور خدا کے نزدیک پھر بھی بہترین امت اور اس کی محبوب بنی رہے۔ یہ ممکن نہیں۔ یہ تصور یہودیوں کا تو ہے لیکن اسلام کا تصورِ امت یہ نہیں ہے۔ قرآنِ کریم نے صاف کہہ دیا ہے کہ تم بہترین اُمّت ضرور ہو لیکن صرف اس وقت تک جب کہ اپنے فرائض منصبی کو ادا کرتے رہو۔ اور فرائض انسان قرآن کریم نے بنیادی طور پر تین ہی مقرر فرمائے ہیں۔ یعنی عبادت، خلافت اور اعمالِ صالحہ ان سے بے نیازی تباہی کی علامت ہے۔ اب آخر چند جملے اس انقلاب کے بارے میں عرض کر دوں جو نبی کریم نے انسانی معاشرے میں برپا کر دیا تاکہ اندازہ ہو جائے کہ اب اس ضمن میں بھی لاثانی ہی قرار پاتے ہیں۔ انقلاب کا اندازہ کرنے کے لئے اس سے پہلے کے حالات زیرِ نظر ہونا ضروری ہیں۔ مختصراً یہ کہ دنیا میں ہر جگہ ہر مذہب میں شرک کا دور دورہ تھا۔ اخلاقی اقدار ختم ہو چکی تھیں۔ شراب، جوا، بدکاری، غارت گری شرافت کا معیار بن گئی تھیں۔ غلاموں کو ذبح کر دینا، بھوکے شیروں کے سامنے ڈال دینا، آپس میں لا کر مروا دینا ایک کھیل تماشہ تھا۔ لڑکیوں کو زندہ دفن کر دینا ایک عام رواج تھا۔ وحشیانہ جنگ و جدال۔ انتقام کا نہ ختم ہونے والا چکر روز مرہّ کا معمول تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلقین نے آناً فاناً ان تمام عیوب کو پہلے عرب معاشرے سے ختم کر دیا اور بعد میں یہ روشنی اسلام کے مجاہدوں اور جانبازوں نے تمام دنیا میں پھیلا دی۔ عرب سے کم از کم ان تمام برائیوں کا خاتمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی ہو گیا تھا۔ اس کے مقابلے میں آپ دوسرے انبیاء کی زندگی پر نظر ڈالیں تو آپ دیکھیں گے کہ یہودی صدیوں تک اپنے انبیاء کو پریشان ہی کرتے رہے بلکہ اکثر کو قتل کر دیا اور ہمیشہ کتابوں میں تحریف کرتے رہے۔ اخلاقی اور معاشرتی قوانین سے بغاوت ہی کرتے رہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ان کے قسیس اور رہبانوں نے جو کچھ کیا وہ سب کو معلوم ہے۔ یہاں تک ان کے ایک ایک حواری نے ہی ان کو گرفتار کرا دیا۔ اور عیسائیت کی تبلیغ بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صدیوں بعد ہی ممکن ہو سکی۔ چنانچہ یہ دعویٰ غلط نہیں کہ نبوت کے لحاظ سے آپ کی کوئی مثال نہیں۔ آفاقہا گردیدہ اُم مہرِ بتاں در زیدہ ام بسیار خوباں دیدہ اُم لیکن تو چیزے دیگری |