اس آیت سے معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ امور غیب پر بذریعہ وحی اطلاع ہر شخص کو نہیں دیتے، البتہ انبیاء کا انتخاب کرکے انھیں دیتے ہیں۔ اس سے یہ شبہ نہ کیا جائے کہ پھر تو انبیاء بھی علم غیب کے شریک اور عالم الغیب ہوگئے کیونکہ وہ علم غیب جو حق تعالیٰ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے کسی مخلوق کو اس میں شریک قرار دینا شرک ہے۔ یہی مغالطہ دور جاہلیت میں بھی بعض نادانوں کو ہوا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے صاف فرمادیا:
’’(اے حبیب! یہ لوگ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس کے واقع ہونے کا وقت کب ہے؟ کہہ دو کہ اس کا علم تو میرے رب ہی کو ہے۔ وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کردے گا۔ وہ زمین و آسمان میں بہت بھاری واقع ہوئی ہے، تم پر اچانک ہی آئے گی۔ یہ تم سے اس طرح دریافت کرتے ہیں کہ گویا تم اس سے بخوبی واقف ہو، کہو کہ اس کا علم تو اللہ ہی کو ہے۔ لیکن اکثر لوگ یہ نہیں جانتے۔‘‘[1]
صحیحین کی حدیث میں ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام انسانی شکل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اورآپ سے اسلام، ایمان اور احسان کے بارے میں پوچھا، پھر پوچھا: قیامت کب آنے والی ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس کے بارے میں مجھے تم سے زیادہ علم نہیں۔[2] نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اور قیامت ان دوانگلیوں کی طرح ہیں، پھر آپ نے شہادت والی اور بیچ کی انگلی کو جوڑ کر دکھایا گویا کہ میرے ساتھ قیامت لگی ہوئی ہے،
|