قوم جو علم سے تھی بے بہرہ
کھول دی زندگی کی اس پہ کتاب
ان کا پیغام جس نے اپنایا
آگیا اس کی زندگی پہ شباب
آپ ہی کی بتائی وہ نکلی
جب بھی سوجھی کسی کو راہِ صواب
(فضلی)
پلٹ دی جس نے کایا اک نظر میں بزمِ ہستی کی
کوئی اعجاز تھا یا عزمِ مردانہ محمد کا
عرب کا ذرّہ ذرّہ آج تک سرشارِ وحدت ہے
کبھی گردش میں آیا تھا وہ پیمانہ محمد کا
(محوی لکھنوی)
یہ کس نے ساز چھیڑا دہر میں وحدت پرستی کا
ترانے شرک کی تانوں کے مدہم ہوتے جاتے ہیں
(ابراحسن گنوری)
یہ نہیں کہ نعتیہ اشعار سننے کے بعد دل پر یہ اثر ہو کہ کسی شاہد رعنا ، خوش رُو ، خوش اندام اور نازک بدن محبوب کی تعریف ہیجیسا کہ بقول غلام امام شہید:
قدِ رعنا کی ادا ، جامۂ زیبا کی پھبن
سرمگیں آنکھ عجب ، ناز بھری وہ چِتوَن
|