اس افراط اور غُلو کی ایک مثال پیر غلام محمد صابری چشتی قادری نظامی کی کتاب ’’نور واحدیّت‘‘[1]میں کچھ یوں ہے:
[2] کے معنٰی جو بزرگان دین نے فَنَا فِي الرَّسُولِ ہوکرحاصل کیے ہیں وہ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ خود نور کی صورت میں تبدیل ہوکر اپنے تمام احکام سنانے کے لیے بولتا ہوا قرآن بن کر آیا ہے۔‘‘
مذکورہ تشریح و توضیح سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے بعض مسلمان بھائی بھی ایسی محکم آیات کو جن کا بیان بہت واضح، صاف اور سیدھا ہے اور جن سے عموماً انبیائے کرام علیہم السلام اور خصوصاً اشرف الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا بندۂ ربّ العالمین اور زمرۂ انسانیت سے ہونا ثابت ہے، کو چھوڑ کر متشابہات کی تاویلات میں اُلجھ گئے ہیں،حالانکہ قرآن مجید پوری صراحت کے ساتھ کہتا ہے کہ اللہ نے ہمیشہ انسانوں ہی کو رسول بناکر بھیجا ہے اور انسان کی ہدایت کے لیے انسان ہی رسول ہوسکتا ہے نہ کہ کوئی فرشتہ یا بشریّت سے بالا تر کوئی ہستی! فرمایا:
’’ ہم نے تم سے پہلے انسانوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا جن پر ہم وحی کرتے تھے۔ اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے پوچھ لو۔ اور ہم نے انھیں ایسا نہیں بنایا تھا کہ وہ کھانانہ کھائیں اور نہ وہ ہمیشہ جینے والے تھے۔‘‘[3]
یعنی کافر جو اعتراض کرتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے پینے اور تجارت سے کیا مطلب، اُس کا جواب دیا جارہا ہے کہ اگلے سب پیغمبر بھی انسانی ضرورتیں رکھتے تھے۔ یہ چیزیں نبوت کے خلاف نہیں۔ ہاں! اللہ تعالیٰ اپنی خاص عنایت سے انھیں پاکیزہ اوصاف، نیک خصائل، ظاہر دلیلیں اور اعلیٰ معجزے دیتا ہے کہ ہر عقل سلیم والا، ہر دانا وبینا مجبور ہوجاتا ہے کہ ان کی نبوت کو تسلیم کرے۔ دوسری آیت میں ہے: ’’تم سے پہلے بھی جتنے نبی
|